احکام حج و عمرہ

سوال نمبر 310

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
(١) جو مکہ میں مقیم ہو اسے عمرہ کے لئے  احرام  باندھناہر بار مسجد عائشہ جاکرپورا کرنا ہوگا ؟
(٢) حج بدل میں قربانی کس کے نام سے ہوگی  فاعل یا مفعول کی طرف سے ؟ 
(٣) کیا جو فوت شدہ ہیں انکے نام سے عمرہ اور جو زندہ ہیں انکے نام سے صرف طواف.. ؟ 
سائل : عبد اللہ نوادہ بہار




وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 جواب
1. مکی حقیقی ہو یا حکمى اس کو احرام باندھنے کے لئے حدود حرم سے باہر جانا ہوگا پھر وہ  جہاں سے بھی احرام باندھے  مگر اس کے لئے تنعیم ( مسجد عائشہ رضی اللہ تعالى  عنہا ) سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے کیونکہ جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھا نبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فعل ہے اور تنعیم  سے احرام باندھنے کا آپ نے حکم فرمایا اور احناف کے یہاں قاعدہ ہے کہ قول و فعل پر راجح ہوتا ہے چنانچہ اسعد محمد سعيد الصاغرجى  لکھتے ہیں کہ
 " والدليل القولى مقدم علينا على الفعلى " اھ 
یعنی ہمارے نزدیک دلیل قولی( دلیل ) فعلى پر مقدم ہوتی ہے " 
اھ ( التسیر فی الفقه الحنفى ص 633 )
 لہذا تنعیم سے احرام باندھنا افضل ہے چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغنانی لکھتے ہیں اور ان سے علامہ عالم بن العلاء الانصاری نے نقل کیا کہ 
" و فى الهداية الا ان التنعیم افضل لورود الاثر به " اھ 
یعنی ہدایہ میں ہے مگر ورود  اثر کی وجہ سے تنعيم ( سے عمرہ کا احرام باندھنا ) افضل ہے " اھ ( ھدایہ اولین ص 148 : کتاب الحج ) 
اور علامہ فخر الدین عثمان بن علی الزیلعی الحنفی لکھتے ہیں کہ 
" و التنعیم افضل لامره عليه الصلوة والسلام بالاحرام منه " اھ 
یعنی تنعیم افضل  ہے کیونکہ نبی ﷺ نے وہاں سے احرام باندھنے کا حکم فرمایا ہے "
 اھ ( تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ج 2 ص 248 : کتاب الحج )
 اور علامہ علاؤ الدین ابن عابدین شامى لکھتے ہیں کہ 
" وافضلة التنعيم وهو تقرب المواضع من مکة عند مسجد عائشة رضی اللہ عنها و يعرف الان عند العوام بالعمرة الجديدة " اھ
یعنی اس کا افضل تنعيم ہیں اور تمام جگہوں میں مکہ سے زیادہ قریب ہے مسجد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ہے اور ( وہاں سے عمرہ ) اب عوام کے  یہاں عمر ه جدیدہ کے نام سے معروف ہیں اور( اب عوام میں چھوٹا عمرہ کے نام سے معروف ہے) "
 اھ ( الھدایہ العلائیہ ص 109 : احکام الحج ، العمرۃ و احکامھا )
 اور محمد سعید الصاغرجی لکھتے ہیں کہ 
"  تنعيم ( عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے ) افضل ہے تنعيم صرف اس کے لئے افضل ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اور اپنی بہن ( ام المؤمنین ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کو تنعيم لے جائیں کہ وہ ہاں سے احرام باندھیں " اھ ( التسیر فی الفقه الحنفی ص 633 : کتاب الحج ، و احکام العمرۃ ) ۔
2.  حج تین طرح کا ہوتا ہے افراد ، تمتع اور قران ۔ ان میں حج افراد میں قربانی واجب ہی نہیں ہے تمتع اور قران میں واجب ہے اب حج بدل کرانے والے نے اگر حج تمتع یا قران کرنے کو کہا یا عرفا تمتع یا قران کی اجازت ثابت ہوئی ہے تو اس کی قربانی حج بدل کرنے والا اپنی طرف سے گا کنز الدقائق میں ہے کہ 
" و دم القران والجناية على المامور " اھ ( کنز الدقائق مع البحر ج 3 ص 117 )
 اور اسی کے تحت البحر الرائق میں فرمایا کہ
 " و اراد بالقران دم الجمع بين النسكين قرانا كان او تمتعا كما صرح به غاية البيان لكن بالاذن المتقدمة
اھ ( البحر الرائق ج 3 ص 117 )
 اور در مختار میں ہے کہ
 " و دم القرآن و التمتع و الجنایة علی الحاج إن إذن له الأمر بالقرآن و التمتع " اھ ( در مختار مع الرد المحتار ج 3 ص 32 ) اور لباب میں ہے کہ
 " لو امره بالقران او التمتع فالدم على المامور
اھ ( اللباب : باب الحج عن الغیر ص 305 ) 

ان ارشادات سے بخوبی عیاں ہے کہ حج بدل کرنے والا حج کی قربانی اپنی طرف سے کرے گا ۔ 
3.  مذہب حق اہل سنت و جماعت کے مطابق مسلمان اپنے نیک اعمال کا ثواب کسی بھی زندہ مردہ مسلمان مرد یا عورت کو دے سکتا ہے چنانچہ در مختار میں ہے کہ 
" الاصل ان كلّ من أتى بعبادة ماله جعل ثوابها لغيره 
" اھ ( ج 4 ص 10 )
 اور رد المحتار میں ہے کہ
 " بعبادة ما اى سواء كانت صلاة او صوما او صدقة او قرأة او ذكر او طوافا او حجا او عمرة الى قوله عن المحيط الافضل لن يتصدق نفلا ان يتولى لجميع المؤمنين و المؤمنات لانها تصل اليهم ولا ينقص من أجره شئى " 
اھ ( رد المحتار ج 4 ص 12 / 11 )
 اور اسی میں ہے کہ " لغيره اى من الاحياء و الاموات بحر عن البدائع "
اھ ( حوالہ سابق )
 اور مجدد دین و ملت سیدی اعلیحضرت امام احمد رضا خان قدس ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں کہ
 " اللہ تعالی کے کرم عمیم و فضل عظیم سے امید ہے کہ سب کو پورا پورا ثواب ملے گا اگر چہ ایک آیت یا دورود یا تہلیل کا ثواب کا آدم علیہ السلام سے قیامت تک کے تمام مومنین و مومنات احیاء و اموات کے لئے ہدیہ کرے "
اھ ( فتاوی رضویہ ج 4 ص 198 ) 
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ آدمی اپنے عبادات یعنی ہر فرض و واجب سنن و نوافل عمل کا ایصال ثواب کرسکتا ہے ۔ 

واللہ اعلم بالصواب 
کریم اللہ رضوی 






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney