سوال نمبر 312
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علما ے کرا م کی بارگاہ میں سوال ہے کی ایک شخص کی شادی ہوئی تھی اب وہ اپنے سالی کے ساتھ نکاح کر لیا ہے کیا یہ درست ہے؟ اور کیا دونو نکاح ٹوٹ گیا ؟
رہنمائی فرمائیں
سائل .محمّد سرور قادری .راۓ بریلی
وعلیکم السلام ور رحمة الله وبركاته
بســـــــم اللہ الـــرحمٰــن الــــرحیــــــم
الجواب الھـم ھــدایـۃ الحـق والصــواب:
صورت مسئولہ میں جب ایک بہن نکاح میں ہودوسری سےنکاح حرام قطعی ہے
اللہ تعالی کافرمان ہے
وان تجمعوا بین الاختین (سورہ نساء
منع ہے کہ تم نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو
پہلانکاح صحیح ہے
اوردوسرا نکاح فاسد ہے
چنانچہ فتاوی ھندیہ میں ہے
ان تزوجھما فی عقدتین فنکاح الاخیرۃ فاسد و یجب علیہ ان یفارقھا ولوعلم القاضی بذلک یفرق بینھما فان فارقھا قبل الدخول لایثبت شیئ من الاحکام وان فارقھا بعدالدخول فلھا المھر ویجب الاقل من المسمی ومن مھر المثل وعلیھا العدۃ ویثبت النسب ویعتزل عن امرأتہ حتی تنقضی عدۃ اختھا کذافی محیط السرخسی:
اگر دوبہنوں سے علیحدہ علیحدہ نکاح کیا تو دوسری کانکاح فاسد ہے اور اس پر مفارقت لازم ہے، اور اگر قاضی کویہ معلوم ہو تو وہ دونوں میں تفریق کردے، اگر دوسری کو دخول سے قبل علیحدہ کردیا تو نکاح کاکوئی حکم نہ ثابت ہوگا، اور اگر اس کو دخول کے بعد جدا کیا تو پھر ا س کو مہر دینا ہوگا مہر مثل اور مقررہ سے جو کم ہو وہ واجب ہوگا اورا س پر عدت ہوگی اور نسب ثابت ہوسکے گا، اورپہلی سے اس وقت تک علیحدگی اختیار کرےجب تک دوسری بہن کی عدت نہ گزر جائے، محیط سرخسی میں یونہی ہے۔
(فتاوی ہندیہ کتاب النکاح القسم الرابع
المحرمات بالجمع۔ج1ص277-278)
سیدی سرکاراعلی حضرت قدس سرہ فرماتےہیں
زید کا اپنی سالی سے نکاح حرام
اس پر فرض ہے کہ فورا اسے چھوڑ دے پھر اگر ابھی سالی سے صحبت نہیں کی جب تو ہندہ اس کے لیے حلال ہے اور اگر اس سے صحبت کرلی تو اب اپنی منکوحہ ہندہ کے پاس بھی جانا حرام ہوگیا، جب تک سالی کو چھوڑ کر اس کی عدت نہ گزرجائے، جب اسے چھوڑے گا اوراس کی عدت گزر جائے گی اس وقت ہندہ کو ہاتھ لگانا جائز ہوگا
(فتاوی رضویہ ج11ص332)
مترجم کتاب النکاح باب المحرمات
و اللــہ تعــالی اعلــم بالصـــــواب
کتبہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
علما ے کرا م کی بارگاہ میں سوال ہے کی ایک شخص کی شادی ہوئی تھی اب وہ اپنے سالی کے ساتھ نکاح کر لیا ہے کیا یہ درست ہے؟ اور کیا دونو نکاح ٹوٹ گیا ؟
رہنمائی فرمائیں
سائل .محمّد سرور قادری .راۓ بریلی
وعلیکم السلام ور رحمة الله وبركاته
بســـــــم اللہ الـــرحمٰــن الــــرحیــــــم
الجواب الھـم ھــدایـۃ الحـق والصــواب:
صورت مسئولہ میں جب ایک بہن نکاح میں ہودوسری سےنکاح حرام قطعی ہے
اللہ تعالی کافرمان ہے
وان تجمعوا بین الاختین (سورہ نساء
منع ہے کہ تم نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو
پہلانکاح صحیح ہے
اوردوسرا نکاح فاسد ہے
چنانچہ فتاوی ھندیہ میں ہے
ان تزوجھما فی عقدتین فنکاح الاخیرۃ فاسد و یجب علیہ ان یفارقھا ولوعلم القاضی بذلک یفرق بینھما فان فارقھا قبل الدخول لایثبت شیئ من الاحکام وان فارقھا بعدالدخول فلھا المھر ویجب الاقل من المسمی ومن مھر المثل وعلیھا العدۃ ویثبت النسب ویعتزل عن امرأتہ حتی تنقضی عدۃ اختھا کذافی محیط السرخسی:
اگر دوبہنوں سے علیحدہ علیحدہ نکاح کیا تو دوسری کانکاح فاسد ہے اور اس پر مفارقت لازم ہے، اور اگر قاضی کویہ معلوم ہو تو وہ دونوں میں تفریق کردے، اگر دوسری کو دخول سے قبل علیحدہ کردیا تو نکاح کاکوئی حکم نہ ثابت ہوگا، اور اگر اس کو دخول کے بعد جدا کیا تو پھر ا س کو مہر دینا ہوگا مہر مثل اور مقررہ سے جو کم ہو وہ واجب ہوگا اورا س پر عدت ہوگی اور نسب ثابت ہوسکے گا، اورپہلی سے اس وقت تک علیحدگی اختیار کرےجب تک دوسری بہن کی عدت نہ گزر جائے، محیط سرخسی میں یونہی ہے۔
(فتاوی ہندیہ کتاب النکاح القسم الرابع
المحرمات بالجمع۔ج1ص277-278)
سیدی سرکاراعلی حضرت قدس سرہ فرماتےہیں
زید کا اپنی سالی سے نکاح حرام
اس پر فرض ہے کہ فورا اسے چھوڑ دے پھر اگر ابھی سالی سے صحبت نہیں کی جب تو ہندہ اس کے لیے حلال ہے اور اگر اس سے صحبت کرلی تو اب اپنی منکوحہ ہندہ کے پاس بھی جانا حرام ہوگیا، جب تک سالی کو چھوڑ کر اس کی عدت نہ گزرجائے، جب اسے چھوڑے گا اوراس کی عدت گزر جائے گی اس وقت ہندہ کو ہاتھ لگانا جائز ہوگا
(فتاوی رضویہ ج11ص332)
مترجم کتاب النکاح باب المحرمات
و اللــہ تعــالی اعلــم بالصـــــواب
کتبہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
0 تبصرے