کیا رات میں قربانی کرنا مکروہ ہے؟

سوال نمبر 322

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
ہمارے شہر میں مکمل لائٹ اور روشنی کا انتظا م ہے ،کیا ہم لوگ رات میں قربانی کرسکتے ہیں ،حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ۔
سائل :-- محمد نسیم الدین رضوی ،کاندیولی ، ممبئی





 وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون اللہ التواب،
صورت مستفسرہ میں بلا کراہت قربانی کرنا جائز ہے ، اس لئے کہ وقت پایا جاتا ہے اور جس احتمام کی وجہ سے رات میں قربانی کرنا مکروہ ہے وہ بھی نہیں ہے ، 
علماء فرماتے ہیں کہ ؛ 
 قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں ،
(فتاوی عالمگیری،جلد اول ، کتاب الضحیہ ) شہر میں نماز عید الاضحی کے بعد اور دیہات میں اس کی بھی قید نہیں ہے ،
 رات کے وقت قربانی کرنا مکروہ بسبب تاریکئی شب اور غلطی  ہے اگر یہ سبب نہ ہو تو بلا کراہت جائز ہے ، 
 امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : 
 رات کو ذبح کرنا اندیشئہ غلطی کے باعث مکروہ تنزیہی خلاف اولی ہے اور ضروت واقع ہو مثلا صبح کے انتظار میں جانور مر جایے گا تو کچھ کراہت نہیں لا الان مامور بہ حذر عن اضالۃ المال اھ یعنی مال کے ضائع ہونے کے خطرہ کی بنا پر وہ اب اس کا مامور ہے ۔
 (فتاوی رضویہ ،جلد 20/ ص 213)
اور  آگے لکھتے ہیں، ذبح اگر صحیح ہو جائے ذبیحہ میں کوئی کراہت نہیں
 لتبین ان الغلط لم یقع،(ایضا)
در مختار میں ہے: 
 ,,کرہ تنزیھا الذبح لیلا لا حتمال الغلط ،،
(کتاب الاضحیہ ج۲،ص ۲۳۲،مطبع مجتبائ)
 یعنی غلطی کے احتمال کی وجہ سے رات کو ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے ۔
واللہ اعلم با لصواب،

            کتبہ
محمد اختر علی واجد القادری






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney