سوال نمبر 365
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
آج قرآن مجید کو مختلف طریقوں سے پڑھا جاتا ہے یعنی سات قرات کے ساتھ تو کیا حدیث سے بھی ثابت ہے کی سات قرات سے قرآن شریف پڑھ سکتے ہیں؟
مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی
سائل غلام احمد رضا
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
صورت مسئولہ میں قرآن پاک کو سات قرات کے ساتھ پڑھنا احادیث نبویہ سے ثابت ہے
جس کا مختصراً تذکرہ یہ ہے
حدیث شریف
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جبرائیل نے مجھے ایک حرف (مخصوص طرح کی قرآت) کے مطابق قرآن پڑھایا میں نے مزید (قرات کی قسم) کی فرمائش کی.. میں فرمائش کرتا رہا اور وہ اضافہ کرتے رہے.. یہاں تک کی سات حروف ہو گئے.. (سات مختلف طرح کی قرات ہو گئی)
(مسلم شریف، عربی اردو، جلد اول، کتاب فضائل قرآن، حدیث نمبر 1799، صفحہ 628، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور پاکستان)
ابن شہاب کہتے ہیں مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ ان سات حروف کا تعلق ایک ہی چیز کے ساتھ ہے اور ان کے درمیان حرام یا حلال کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں
اور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
قرآن مجید کی سات قرآتیں سب سے زیادہ مشہور و متواتر ہیں.. ان میں معاذاللہ کہیں بھی اختلاف معنی نہیں وہ سب حق ہیں... اس میں امت کے لیے آسانی یہ ہے کہ جس کے لئے جو قرات آسان ہو وہ پڑھے اور حکم یہ ہے کہ جس ملک میں جو قرات رائج ہے، عوام کے سامنے وہی پڑھی جائے، جیسے ہمارے ملک میں قرات عاصم بروایت حفص کہ لوگ ناواقفی سے انکار کریں گے اور وہ معاذاللہ کلمہ کفر ہوگا.. (بہار شریعت حصہ اول)
فائدہ
اب اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو سات قرات میں پڑھنا ثابت ہے اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے اور امت کے لئے آسانی ہی ہے
کتبہ
صبغت اللہ فیضی نظامی
1 تبصرے
سبحان اللہ بہت عمدہ جواب عنایت فرمایا آپ نے... .
جواب دیںحذف کریںاللہ جزائے خیر عطا کرے . آمین