سوال نمبر 337
سوال کیا عورت قبرستان جاسکتی ہے
سائل : گوہر علی
الجواب
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟
بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا )
ملفوظات شریف ص 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی
(نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاپہلے میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع فرمایا تھا اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ قبروں کی زیارت کرو۔کیونکہ اس سے انسان کو نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ اب یہ سرکار ﷺ کا حکم ہے اس میں نہ مرد کی تخصیص ہے نہ عورت کی ۔اگر آپ ﷺ کا کوی ایسا حکم آجاے جس میں مردوں یا عورتوں کو مخاطب نہیں کیا تو حکم دونوں کے لیے ہوتا ہے گویا دونوں کو اجازت ہے۔اس قسم کی حدیثوں سے اجازت نظر آتی ہے۔کہ عورت مزار پر بھی جا سکتی ہے قبرستان میں بھی جاسکتی ہے۔لیکن فقہا نے یہ ضرور بیان فرمایا کہ چونکہ صحابہ کرام نے اس بات پر اتفاق کر لیا تھا کہ پرفتن زمانہ کی وجہ سے عورتیں مسجدوں میں جماعت کے لیے حاضر نہیں ہوں گی۔تو جو جماعت واجب تھی اس سے عورتوں کو روک دیا کیونکہ زمانے میں فتنہ ہے۔تو قبرستان جانا مزار پر جانا زیادہ
زیادہ مستحب عمل ہے ۔کہ
اگر اچھی نیت سے جائیں تو ثواب اگر نہ جائیں تو کوی گناہ کا پہلو نہیں ہے۔ تو ترک جماعت میں پھر بھی گناہ کا پہلو تھا لیکن فتنے کی وجہ سے جب اسکو صحابہ کرام نے منع فرما دیا تو مستحب کام تو بدرجہ اولی منع ہو گا لحاظہ فقہاکرام نے فرمایا کہ عورتیں اپنے گھر سے ہی ایصال ثواب کریں قبرستان اور مزارات نہ جائیں۔لیکن اگر کوی بہن جاتی ہے اور قیودات شریعہ کا لحاظ کر کے جاتی ہیں تو اس کو حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے۔
وہ شرعی قیودات کیا ہیں؟
اپنے محرم کے ساتھ جاے۔شوہر ہے توا سکی اجازت سے۔ ماں باپ ہیں تو ماں پاب کی اجازت سے۔باپردہ طریقے سے نکلیں۔راستہ پرا من ہونا چاہیے کو ئی عزت وغیرہ کا لٹنے کا اندیشہ نہ ہو ۔اور اس طرح جہاں وہ جا رہی ہیں وہاں عورتوں مردوں کا اختلات نہ ہو۔ بے پردگی نہ ہو جیسے قریب قریب ہیں۔عورتوں کا دروازہ علیحدہ ہے مردوں کا علیحدہ ہے علیحدہ علیحدہ بیٹھنا ہو گا۔اور وہاں جا کر رونا پیٹنا نہ کریں۔یا ادب میں حد سے آگے نہ بڑھیں۔جیسے کہ علما کرام نے مزار پر حاضری کا یہ طریقہ بیان فرمایا ہے۔کہ آپ قدموں کی طرف سے آہیں
۔یہ حدیث میں بھی ہے کہ سرکار ﷺ نے فرمایا کہ سر کی طرف سے نہ آو کہ مردا پلٹ کے دیکھتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔اور اس طرح سینے کے سامنے کھڑے ہو جاہیں صاحب مزار کے ہمارا چہرہ انکے سینے کی طرف ہو اور چار قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوں۔جو قرآن پاک پڑھنا ھے وہ پڑھیں اسکے بعد اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگیں اور ایسے پلٹ آہیں۔علما نے قبر کو چومنے سے اور ہاتھ لگانے سے منع فرمایا ہے۔کہ یہی ادب کا تقاضہ بھی ہے۔
ان قیودات کا لحاظ رکھ کر اگر کوی جانا چاہے تو جا سکتی ہیں افضل و اولی یہی ہے کہ گھر سے ہی ایصال ثؤاب کر دیا جاے۔
اور یہ جو اوپر پوسٹ کی یہ اسی کے ساتھ مقید ہے کہ اگر کوی عورت قیودات شریعہ کے خلاف جاتی ھے تو اس پر اللہ کی لعنت لکھی گی ہے۔
واللہ اعلم
کتبہ
محمداسماعیل خان امجدی
1 تبصرے
Jawab ka tariqa acha ni lga
جواب دیںحذف کریںLink send krdete hen ..