سوال نمبر 414
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کے زید ایک کمپنی میں کام کرتا ہے جو کے غیر مسلم کی ہے تو اس کمپنی کا مالک دیوالی کے تیوہار پر انکی تنخواہوں کے ساتھ بونس بھی دیتا ہے تو کیا اس بونس کا لینا جائز ہے جبکہ ہندوستان کی اکثر کمپنی اپنے کرمچاری کو دیوالی کا بونس دیتی ہے
مفصّل و مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل عبدالصمد
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب
اس بونس کا لینا جائز و درست ہے. وجہ یہ ہے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں جیسا کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے استاذ حضرت ملا جیون علیہما الرحمہ اپنی کتاب"تفسیرات احمدیہ"میں تحریر فرماتے ہیں
"ان هم إلا حربى وما يعقلها إلا العالمون"(ص:٣٠٠)
"ان هم إلا حربى وما يعقلها إلا العالمون"(ص:٣٠٠)
اور ان حربی کفار کی طرف سے جو مال ان کی رضا و خوشی سے مل جاے اس کا لینا حلال و مباح ہے بشرطیکہ مسلمان کی طرف سے غدر و بد عہدی نہ ہو کہ یہ(غدر و بد عہدی)کفار سے بھی جائز نہیں.
اس بابت فقہی جزئيات ملاحظہ فرمائیں.
ہدایہ میں ہے-
" ان مالهم مباح... فبای طریق أخذہ المسلم أخذ مالاً مباحا إذا لم یکن فیہ غدر"
یعنی کفار کا مال مباح ہے لہٰذا ان کا سواے دھوکہ کے جس طریقے سے بھی مسلمان نے لے لیا مباح مال لیا.(کتاب البیوع،باب الربا،ج:٣،ص:٨٧ملخصا)
" ان مالهم مباح... فبای طریق أخذہ المسلم أخذ مالاً مباحا إذا لم یکن فیہ غدر"
یعنی کفار کا مال مباح ہے لہٰذا ان کا سواے دھوکہ کے جس طریقے سے بھی مسلمان نے لے لیا مباح مال لیا.(کتاب البیوع،باب الربا،ج:٣،ص:٨٧ملخصا)
ردالمحتار میں ہے.
"لابأس بأن یاخذ منھم أموالهم بطیب أنفسهم بای وجہ کان لأنہ إنما أخذ المباح علی وجہ عری عن الغدر فیکون طیبا لہ"
یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ(مسلمان)حربیوں کا مال ان کی رضامندی سے لے کیوں کہ اس نے مال مباح ایسے طریقے سے لیا جو کہ دھوکہ سے خالی ہے لہٰذا یہ اس کے لیے حلال ہے.(کتاب البیوع، باب الربا،ج:٧،ص:٤٢٣)
فتاوی رضویہ میں ہے.
" جو مال غير مسلم سے کہ نہ ذمی ہو نہ مستامن بغیر اپنی طرف سے کسی غدر اور بد عہدی کے ملے اسے لینا جائز ہے اگر چہ وہ دینے والا کچھ کہے یا سمجھے کہ اس کے لیے اس کی نیت بہتر ہے نہ کہ دوسرے کی"(ج:١٧،ص:٣٢٥)
اسی میں فرماتے ہیں.
"کافر غیر ذمی کا مال بلا غدر جو حاصل ہو وہ مال مباح سمجھ کر لینا حلال ہے"(ج:١٧،ص:٣٤١)
فتاوی امجدیہ میں ہے.
" کافر حربی کا مال مسلمان کے لیے مباح ہے جب تک غدر یعنی عہد شکنی نہ ہو تو اس میں حرج نہیں"(ج:٣،ص:٢٠٤)
نیر اسی میں ہے.
"کفار سے جو اموال ان کی خوشی سے ملیں وہ مطلقاً جائز ہیں"(ج:٣،ص:٢٠٧)
بہار شریعت میں ہے.
کافروں کی خوشی سے جس قدر ان کے اموال حاصل کرے جائز ہے..... مگر یہ ضرور ہے کہ وہ کسی بد عہدی کے ذریعہ حاصل نہ کیا گیا ہو کہ بد عہدی کفار کے ساتھ بھی حرام ہے.(ج:٢،ح:١١،ص:١٥٣ملخصا)
فتاوی فیض الرسول میں ہے.
" ہندوستان کے تمام کفار حربی ہیں اور حربی کا مال معصوم نہیں بلکہ مباح ہے بشرطیکہ ان کی رضا سے ہو غدر اور بدعہدی نہ ہو.... اس کا لینا جائز ہے کہ وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں"(ج:٢،ص:٣٩٢ملخصا)مذکورہ بالا عبارات فقہیہ سے معلوم ہوا کہ یہاں کے کفار سے جو مال ان کی رضا و خوشی سے ملے اس کا لینا جائز ہے جب کہ غدر و بدعہدی نہ ہو اور بونس بھی وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اس میں کسی مسلمان کی طرف سے کوئی غدر و بدعہدی کا معاملہ نہیں ہوتا لہذا اس کالینابلا شبہ جائز و درست ہے-
واللہ تعالیٰ أعلم.
واللہ تعالیٰ أعلم.
کتبہ-
محمد معراج احمد قادری
0 تبصرے