سوال نمبر 467
السلام علیکم رحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ھیں علماۓ کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ
بیر کی ڈالیاں جو قبر میں رکھتے ھیں جیسا کہ ھمارے علاقے میں عام ھے اس کی اصل کیا ھے کیا اس سے میت کو کچھ فائدہ ملتا ھے ؟ مع حوالہ جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ھوں اورعند الناس مشکور ھوں ۔
المستفتی محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی سدھار تھ نگر ( یوپی)
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب:-- پھولوں کی چادر بالائے کفن ڈالنے میں شرعاً اصلاً حرج نہیں بلکہ نیت حسن سے حسن ہے جیسے قبور پر پھول ڈالنا کہ وہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کرتے ہیں اس سے میت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے قبروں پر گلاب اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے (فتاویٰ ہندیہ‘ السادس عشر فی زیارۃ القبور‘ جلد 5)
فتاویٰ امام قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلاح و رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: پھول جب تک تر رہے تسبیح کرتا رہتا ہے جس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے (رد المحتار‘ مطلب فی وضع الجدید و نحو الآس علی القبور‘
جلد اول ص 606
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9)
اور ہمارے یہاں عام طور پر جو قبروں میں بیری کے درخت کی شاخیں رکھی جاتی ہیں اولا اس سے مردوں کی حفاظت دوسرے تر رہنے کی صورت میں وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہیں
اور حدیث شریف میں ہے
اخبرنا هناد بن السري، عن وكيع، عن الاعمش، قال: سمعت مجاهدا، يحدث عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال:" إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير، اما هذا فكان لا يستنزه من بوله، واما هذا فإنه كان يمشي بالنميمة، ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا". خالفه منصور، رواه، عن مجاهد، عن ابن عباس، ولم يذكر طاوسا.
اخبرنا هناد بن السري، عن وكيع، عن الاعمش، قال: سمعت مجاهدا، يحدث عن طاوس، عن ابن عباس، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين، فقال:" إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير، اما هذا فكان لا يستنزه من بوله، واما هذا فإنه كان يمشي بالنميمة، ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين فغرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا، ثم قال: لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا". خالفه منصور، رواه، عن مجاهد، عن ابن عباس، ولم يذكر طاوسا.
(صحیح مسلم)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ”امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے
اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ کہ تر چیز قبر پر رکھنا نزول رحمت و دافع عذاب کا سبب ہے
واللہ اعلم
محمد وسیم فیضی
9670711698
0 تبصرے