نفاس کے اکثر مدت کے اندر خون بند ہونے پر عبادات کا حکم

سوال نمبر 492

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
نفاس کی مدت چالیس دن ہے اگر چالیس دن سے پہلے خون آنا بند ہو گیا تو نماز یا دیگر عبادات و ہمبستری کا کیا حکم ہے؟
مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل غلام احمد رضا




وعلیکم السلام 
الجو ب بچہ پیدا ہونے کے بعد جو خون آتا ہے اسے’’ نفاس کاخون‘‘کہا جاتا ہے اور اس کی کم سے کم کوئی مدت نہیں البتہ زیادہ سے زیادہ چالیس دن کی مدت ہے،اگر کسی عورت کو چالیس دن کے بعد بھی خون آئے تو وہ نفاس کا خون نہ ہوگا بلکہ استحاضہ کہلائے گا  جب تک نفاس کا خون آئے گا تو اس میں نمازیں معاف ہیں،روزے رکھنا اور قرآن کو چھونا جائز نہیں اور روزوں کی قضاء پاک ہونے کے بعد کی جائے گی اور بچہ پیدا ہونے کے کچھ ہی دیر بعد خون آنا بند ہوجائے تو اس پر ضروری ہے کہ وہ غسل کرکے نماز وغیرہ پڑھے اور اس سے ہمبستری بھی جائز ہے 
مختصر القدوري 
میں صاحب قدوری تحریر فرما تے ہیں 
والنفاس: هو الدم الخارج عقيب الولادة والدم الذي تراه الحامل وما تره المرأة في حال ولادتها قبل خروج الولد استحاضة
وأقل النفاس لا حد له وأكثره أربعون يوما وما زاد على ذلك فهو استحاضة وإذا تجاوز الدم الأربعين وقد كانت هذه المرأة ولدت قبل ذلك ولها عادة في النفاس ردت إلى أيام عادتها وإن لم لها عادة فابتدأ نفاسها أربعون يوما

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب 
         کتبہ 
محمد وسیم فیضی رضوی 
9670711698






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney