سوال نمبر 497
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
كيا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ کسی دیوی دیوتا کے سامنے سر جھکانا یا پوجا کرنا یا قشقہ لگانا یا اس میں شرکت کرنا یا دسہرہ وغیرہ کے میلہ میں بطور رسماً جانا اشٹمی دسہرہ منانے کی غرض سے کسی کو نذرانہ دینا یہ کہاں تک درست ھے ؟ شرعاً کیا ایسے لوگ مسلمان ہیں ؟ مدلل مفصل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجورھوں عند الناس مشكور هو ں
المستفتى حافظ حيدر على سعى بڈہرا
المستفتى حافظ حيدر على سعى بڈہرا
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم ھداية الحق والصواب
ایسے میلوں میں بحیثیت تماشائی جانا حرام ہے حرام سخت حرام بہت أخبث نهايت هى أشنع يعنى بہت گھٹیا کام بحکم فقہاء کرام معاذ الله كفر انجام هے
حديث میں ھے۔
من كثر سواد قوم فهو منهم ترجمه جس نے کسی قوم کی طریقے کو اپنایا تو وہ اس قوم میں سے ھے۔ خزايةالروات میں هےفي الفصول قال الشيخ ابو بكر الطرخانى من خرج إلى السدة فقد كفر لأن فيه اعلان الكفر وعلى قياس مسئلةالسدة الاخ
اسى میں ہے
كذالك الخروج فى ليلة التى يلعب فيها كفرة الهند بالنبرن و الموافقة معهم فى ما يفعلون تلك الليلة۔۔الخ اھ
إن لوگوں پر توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ تجارت کے لئے جاتے ہیں انہیں مجمع کفار سے علیحده قيام چاہئے اول تو جانا ہی نہیں چاہئے اور جائیں تو وہاں سے دور رہیں اس قدر دور کہ اُن سے اُن کے مجمع میں اضافہ ہوکر اُسکی شوکت نہ ہو ،انکی دوکانوں سے اس کی زینت نہ ہو اُن کے آگے اعلان کفر نہ ہو مجمع کفار محل لعنت ہے خصوصاً ایسا مجمع جو اظہار واعلان کفر ہو ،محل لعنت سے یوں بھی بچنا ضروری ہے اگر چہ اس وقت اظہار کفر نہ ہو ۔۔۔۔
،تجارت کے لئے اگر جاتے ہیں تو مجمع کفار سے بالکل علیٰحدہ جہاں سے اُن کی کفری باتیں دیکھ سن نہ سکیں۔۔۔۔ راہ میں رہیں مقصد تجارت یوں بھی حاصل ہوگا اگر وہ لوگ خریدنا چاہیں گے راہ میں خریدیں گے وہاں بھی نہ خریدنا چاہیں گے تو وہاں بھی نہ خریدیں گے آجکل تو یہ نری ہوس خام ہے کفار تو مسلمانوں کا بائیکاٹ کر چکے ہیں اُن سے وہ ضرورت پر تو خریدنا روا نہیں رکھتے میلہ میں بے ضرورت اور گراں اُن سے خریدیں گے میلوں میں ہمیشہ چیز گراں بکتی ہے ،وہ مسلمانوں کو میلوں میں آنے کے روادار نہیں ہوتے ،وہ ممانعت نہیں کرتے کہ مسلمان میلوں میں آئیں اور اُنہیں موقع ڈھونڈھ کر خوب لوٹیں برسوں سے متعدد مواقع پر ایسا ہو رہا ہے مگر مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں اور پھر پہو نچتے ہیں نہ دین کا لحاظ نہ دنیا، خدا اُن کی آنکھیں کھول دے۔۔۔۔۔۔
دسهره منا نے والے سوال میں جو مذکور ہے ایسا کرنے والے از سر نو کلمہ اسلام پڑھیں اُن پر تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ہے یہ لوگ اگر باز نہ آئیں۔اور تجدید ایمان تجدید نکاح نہ کریں تو اُن سے تا وقت توبہ مقاطع كيا جائے سلام وکلام میل جول نشست برخاست یک لخت موقوف کیا جائے فتاویٰ صغيرى میں ہے
من اشترى يوم النيروز شيئ ولم يكن يشتريه قبل ذالك أن أراد به تعظيم النيروز كفر
شرح فقه اكبر میں ہے
من أهدى يوم النيروز واراد تعظيم النيروز كفر
فتاوى مصطفويه صفحه 96/97
جس نے غیر خدا کی پرستش کی یا کرائی یا اس پر راضی ہوا کافر ہے ،الرضاء بالكفر كفر ،،مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس سےميل جول اسلام و کلام شادی بیاہ ایک مدت تک چھوڑ دیں وہ لوگ پھر سے مسلمان ہوں اور بیو ی رکھتے ہوں تو اُن سے دوبارہ نکاح کریں اگر اسلام نہ لائیں تو موت زیست کے تمام تعلقات قطع کر دیں فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 406
عمل جوارح داخل ایمان نہیں البتہ بعض اعمال جو قطعًا منافی ایمان ھوں ان کے مرتکب کو کافر کہا جائیگا جیسے بت یا چاند سورج کو سجدہ کرناوغیرہ یہ باتیں یقیناً کفرھیں ۔۔
اور یونہی بعض اعمال کفر کی علامت ھیں ۔۔۔۔۔۔ جیسے زنّار باندھنا ؛؛ سرپر چوٹیا رکھنا ؛؛ قشقہ لگانا ایسے افعال کے مرتکب کو فقہاۓ کرام کافر کہتے ھیں ۔
تو جب ان اعمال سے کفر لازم آتاھے تو ان کے مرتکب کو از سرنو اسلام لانے اوراس کے بعد اس کو تجدید نکاح کا حکم دیا جاۓ اور تجدید بیعت بھی کرے۔۔۔
بہار شریعت حصہ اول 53 ۔(ھکذافی الفتاوی شارح بخاری جلد دوم 542 باب الفاظ الکفر کتاب العقائد)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
العبد محمد عتيق الله صديقى فيضى يار علوى عفى عنه
دار العلوم اهلسنت محي الاسلام
بتهريا کلاں ڈو مریا گنج
سدّھا تھ نگر یو پی
0 تبصرے