آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

جو بچہ مردہ پیدا ہو کیا اس کا نام رکھنا ضروری ہے؟

سوال نمبر 548

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال  یہ ہے ایک عورت جن کو تقریباً ۱۵ سال پہلے ایک لڑکی پیدا ہوئی جو کہ پیٹ میں ہی مر چکی تھی اس کو بغیر نام رکھے ہی دفن کیا گیا پوچھنا یہ ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ جن فوت شدہ بچوں کے نام نہ رکھے جائیں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ میرے ماں باپ نے میرا نام نہ رکھ کر مجھے ضائع کر دیا، لا علمی کی وجہ سے یہ ہوا ہے اور اب والدین کو اس حدیث کا علم ہوا ہے تو وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا، کیا جائے اب نام رکھ سکتے ہیں یا نہیں...؟
سائل عباس علی گونڈوی




وعلیکم السلام ور رحمة الله وبركاته
الجواب بعون الملک الوہاب  علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بچہ پیدا ہو کر مر گیا تو دفن سے پہلے اس کا نام رکھا جائے لڑکا ہو تو لڑکوں کا نام اور لڑکی ہو تو لڑکیوں کا  نام رکھا جائے  اور معلوم  نہ  ہو سکا کہ لڑکی ہے یا لڑکا تو ایسا نام رکھا جائے جو مرد و عورت دونوں کے لئیے ہو سکتا ہے (ردالمحتار کتاب الحضر والاباحة فصل فی البیع ج ۹ ص ۶۸۹)
اور امام ابو یوسف رحمة الله علیہ کا مذہب یہ ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہو یا مردہ بہر حال اس کی تکریم کے لئیے اس کا نام رکھا جائے ملتقی الا بحر میں ہے کہ اسی پر فتوٰی ہے  اور نہر سے مستفاد ہے کہ یہی مختار ہے  ایسا ہی در مختار باب صلوة الجنازة جلد ۳  صفہ ۱۳۵ میں ہے  (حاشیہ بہارشریعت)

( ماخوذ بہار شریعت حصہ ۱۶ نام رکھنے کا بیان)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تک علم میں نہیں تھا کوئی بات نہیں لیکن اب بھی اس بچی کا نام رکھ سکتے ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں .

والله اعلم باالصواب
کتبـــــہ 
محــــمد معصــوم رضا نوری عفی عنہ
 مقیم حال منگلور کرناٹکا الھند
۲۹ محرم الحرام ١٤٤١ھ 
۲۹ اکتوبر ۲۰۱۹ء
   +918052167976



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney