سوال نمبر 566
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال علمائے کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ آج کے ماحول میں لوگ (فلاش) یعنی تاش کھیلتے ہیں تو کس امام کے نزدیک فلاش یعنی تاش کھیلنا جائز ہے؟ بحوالہ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل محمد مشرف رضا رضوی پورنوی بہار
وعلیکم السلام ورحمتہ الله و برکاته
الجواب الھم ہدایةالحق والصواب
تاش کھیلنا حرام ہے اشد حرام ہے قرآن و احادیث میں اس کی وعیدیں مذکور ہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :من لعب بالنردشیرفکانماصبغ یدہ فی لحم خنزیرودمہ
ترجمہ جس نے چوسر کھیلی اس نے گویا اپنا ہاتھ سور کے گوشت خون میں رنگا۔ (صحیح مسلم کتاب الشعر باب تحریم اللعب بالنردشیر قدیمی کتب خانہ کراچی۲/ ۲۴۰)
نیز دوسری جگہ دوسری فرمایا :من لعب بالنردفقدعصی اللہ ورسولہ اخرجہ احمد
ترجمہ جس نے چوسر کھیلی اس نے خدا اور رسول کی نافرمانی کی (مسند امام احمدبن حنبل المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۳۹۴)
حضور فقیہ ملت علیہ الرحمہ مشکوتہ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں "جتنی چیزوں سے آدمی کھیلتا ہے سب باطل ہے مگر کمان سے تیر چلانا اور گھوڑے کو ادب دینا اور بیوی کے ساتھ ملاعبت کہ یہ تینوں حق ہیں (مشکوة شریف ص ٣٣٧)
مزید آگے تحریر فرماتے ہیں کہ جب انسان کسی کھیل میں پڑتا ہے تو دھیرے دھیرے اس کو کھیلنے کی عادت پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے فرائض نماز و جماعت وغیرہ سب چھوٹنے لگتے ہیں اور اگر عادت نہ پڑے کبھی اتفاقاً کھیلے پھر بھی جب اس میں مشغول ہوگا نماز وغیرہ نہ بھی چھوٹے جب بھی نماز میں اتنی تاخیر کہ وقت تنگ ہوجائے یا ترک جماعت میں ضرور مبتلا ہو جائیگا جو ہرگز جائز نہیں (فتاوی فقیہ ملت باب اللہو واللعب جلد دوم صفحہ نمبر ٣٤٢)
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ "تاش کھیلنا حرام ہے سخت گناہ
ہے اور اس میں بازی لگانا اور جوا کھیلنا حرام در حرام (فتاوی مصطفویہ ص ٤٥٣)
ان تمام حوالہ جات سے اظہر من الشمس ہو گیا کہ فعل حرام کسی امام کے نزدیک کیسے جائز ہو سکتا ہے. لہٰذا تاش کھیلنا حرام ہے کوئی بھی کھیل جسکا ذکر احادیث میں موجود ہے انکے سوا سب ناجائز و گناہ ہے. والله اعلم باالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــہ
محــــمد معصــوم رضا نوری عفی عنہ
مقیم حال منگلور کرناٹک
۳ ربیع النور شریف ۱۴۴۱ھ
۲ نومبر ۲۰۱۹ء بروز سنیچر
+918052167976
0 تبصرے