آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

عورت کو بھگا کر لانا اس کے بعد نکاح کرنا کیسا؟

سوال نمبر 694

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ زید ہندہ کو بھگا کر اپنے گھر لے آیا ہندہ ممبٸ میں رہتی تھی دونوں کے گھر والے اس فعل سے راضی نہیں ہیں تو زید اور ہندہ پر شرعی حکم کیا ہے اور کوٸی عالم دین نکاح پڑھا سکتا ہے یا نہیں  
سائل  محمد ھاشم انٹیاتھوک




وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
 آج کل بہت سی عورتوں کو لوگ دوسرے صوبوں اور ملکوں سے بھگا کر لاتے ہیں، اور روپیہ لیکر کسی شخص کے سپرد کر دیتے ہیں وہ بغیر نکاح یا نکاح کے ساتھ اس عورت کو اپنی بیوی مان لیتا ہے پھر اس قسم کی عورتیں عموماً بھاگ کر کسی دوسرے شخص کے گھر پہنچ جاتی ہیں پھر وہ شخص عورت کے جھوٹ سچ بیان کے مطابق یا تو اسے اپنی بیوی بنا لیتا ہے یا پیسہ لیکر دوسرے کے سپرد کر دیتا ہے پھر وہاں سے بھی اس قسم کی عورتیں فرار ہوجاتی ہیں اور ایسے ہی متعدد مقامات پر نکاح کرتی ہیں اور بھا گتی رہتی ہیں

لہٰذا تا وقتکہ یقینی طور پر نہ معلوم ہوجائے کہ عورت کسی کے نکاح  اور عدت میں نہیں ہے صرف عورت کے بیان اور اس قسم پر اس طرح عورتوں کے ساتھ نکاح کے جواز کا حکم نہیں دیا جائیگا اگر نکاح کسی نے پڑھا دیا تو نکاح خواں پر لازم ہے کہ نکاح مذکور کے غلط ہونے کا اعلان عام کرے اور نکاحانہ پیسہ بھی واپس کرے اگر وہ ایسا نہ کرے تو سب مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں ـ اور اگر وہ منصب امامت پر فائز ہے تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں  جب تک کہ وہ توبہ و استغفار نہ کرے اور جس نے اس عورت کے ساتھ نکاح کیا فوراً اس سے جدا ہو جائے اور ہرگز ہرگز اس کے ساتھ میاں بیوی جیسا تعلق قائم نہ کرے اگر وہ ایسا نہ کرے تو مسلم سماج اس کا بھی بائیکاٹ کریں تاوقتکہ وہ اس سے الگ نہ ہوجائے اور توبہ و استغفار نہ کرے ارشاد باری تعالی ہے

واما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعدالذکری مع القوم الظلمین 
 القرآن پارہ ۷ رکوع ۱۴

بہرکیف صورت مستفسرہ میں زید جس عورت کو ممبئی سے بھگا کر لایا ہے اگر واقعی کسی کی عدت یا نکاح میں نہیں ہے تو بلاشبہ نکاح جائز ہے خواہ والدین راضی ہوں یا ناراض کیونکہ والدین کی ناراضگی نکاح کے جواز میں دیوار نہیں بن سکتی ، ہاں نکا ح سے قبل زید و ھندہ کا خلوت میں بات چیت کرنا اور ایک گھر میں ساتھ رہنا حرام فعل کا ارتکاب کرنا ہے جو کہ عظیم گناہ ہے زید و ھندہ دونوں توبہ و استغفار کریں ، اور زید کے والدین اگر زید کے فعل حرام سے واقف ہونے کے باوجود بھی زید و ھندہ کو منع نہ کیا بلکہ جب تک یہ دونوں انکے گھر رہے تو زید کے والدین کی رضا مندی رہی تو وہ بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہوئے لھذا زید کے والدین بھی توبہ و استغفار کرے البتہ زید کے حسن ادب و اخلاق کا اول تقاضہ یہ ھیکہ والدین کو اپنے نکاح کیلئے راضی کرلینا چاہئے تاکہ زید کی ازدواجی زندگی خوشگوار بن جائے اور دین و دنیا میں کامیاب و کامران رہے ،، اللہ تعالی ہر اولاد کو توفیق دے کہ وہ اپنے والدین کریمین کو حتی المقدور راضی رکھے،
اللھم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم 
واللہ تعالی اعلم بالصواب 

مأخذ فتاوی فیض الرسول 
جلد اول صفحہ 642


کتبہ 
العبدالاثیم خاکسار 
ابوالصدف محمد صادق رضا 
مقام ، سنگھیاٹھاٹھول(پورنیہ) 
خادم ، شاہی جامع مسجد 
پٹنہ. بہار. الھند



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney