سوال نمبر 707
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
خمس، کیا ہے اور خمس سے سید زادے کھا، پی سکتے ہیں کی نہیں؟
سائل عامر حسین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالٰی
خمس کے معنی ہیں پانچواں حصہ، خمس مال غنیمت اور رکاز (کان،،، میں ہے کما فی الحدیث،،، کان سے لوہا سیسہ تانبا پیتل سونا چاندی نکلے اس میں خمس ہے، یعنی پانچواں حصہ لیا جائے گا اور باقی پانے والے کا ہے، بہار شریعت حصہ پنجم صفحہ ۹۱۲ اور مال غنیمت کے پانچویں حصہ کو خمس کہتے ہیں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَاَنَّ ِﷲِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ
پارہ ۸ سورہ انفال آیت نمبر ۴۱ ترجمہ:-- اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے،، کنزالایمان
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں مال غنیمت کے پانچویں حصہ کو خمس کا نام دیا گیا ہے۔ آئیے پہلے دیکھتے ہیں کہ مال غنیمت کس کو کہتے ہیں؟ آیت مزکورہ کی تفسیر میں حضور صدرالافاضل علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ غنیمت وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ میں بطریق قہر و غلبہ حاصل ہو( خزائن العرفان)
لہٰذا مسلمانوں کا دورانِ جنگ دشمن پر غلبہ پاکر حاصل کیا جانے والا مال، مالِ غنیمت کہلاتا ہے اور اس مال غنیمت کے پانچویں حصے کو خمس کا نام دیا جاتا ہے
مزید فرماتے ہیں کہ یہ پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اس میں چار حصے غازیوں کے ہیں، اور غنیمت کا پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہوگا ان میں سے ایک حصہ جو کل مال کا پچیسواں حصہ ہوا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اور ایک حصہ آپ کے اہل قرابت کے لئے اور تین حصے یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے (خزائن العرفان فی تفسیر القرآن صفحہ ۳۴۴ )
اور خمس سادات کرام کے لئے جائز ہے جیساکہ فقیہ اعظم ھند حضور صدرالشریعیہ علامہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں کہ خمس سادات کو دے سکتے ہیں مگر خمس غنیمت میں ہوتا ہے یا رکاز وغیرہ میں،،، فتاوی امجدیہ جلد اول کتاب الزکاتہ صفحہ ۳۷۲
لھذا مزکورہ بالا کتب کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ خمس کسے کہتے ہیں اور سادات کرام کے لئے خمس جائز وحلال ہے ،،،
مزید فرماتے ہیں کہ یہ پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اس میں چار حصے غازیوں کے ہیں، اور غنیمت کا پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہوگا ان میں سے ایک حصہ جو کل مال کا پچیسواں حصہ ہوا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے اور ایک حصہ آپ کے اہل قرابت کے لئے اور تین حصے یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے (خزائن العرفان فی تفسیر القرآن صفحہ ۳۴۴ )
اور خمس سادات کرام کے لئے جائز ہے جیساکہ فقیہ اعظم ھند حضور صدرالشریعیہ علامہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں کہ خمس سادات کو دے سکتے ہیں مگر خمس غنیمت میں ہوتا ہے یا رکاز وغیرہ میں،،، فتاوی امجدیہ جلد اول کتاب الزکاتہ صفحہ ۳۷۲
لھذا مزکورہ بالا کتب کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ خمس کسے کہتے ہیں اور سادات کرام کے لئے خمس جائز وحلال ہے ،،،
واللہ تعالی ورسولہ اعلم بالصواب
کــتبہ
حقیر عجمی محمد علی قادری واحدی ۲۳ جمادی الآخر ۱۴۴۱ ھجری
0 تبصرے