آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

آدھا بچہ پیدا ہوا انتقال کر گیا تو نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 738

السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام آدھا بچہ پیدا ہوا اور انتقال کر گیا تو اسکے جنازے کی نماز پڑھی جائے گی یا نہیں؟
پورا تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
 عین نوازش ہوگی.
سائل:-- محمد عباس اشرفی کچھوچھہ شریف.





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ تعالٰی وبرکاتہ
 الجواب:-- صورت مستفسرہ کے متعلق حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علیہ الرحمۃ والرضوان بھار شریعت میں بحوالہ درمختار و ردالمحتار تحریر فرماتے ہیں کہ " مسلمان مرد و عورت کا بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصہ باہر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مرگیا تو اسکو غسل و کفن دینگے اور اسکی نماز پڑھینگے ورنہ اسے ویسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دینگے اس کے لئے غسل و کفن بطریق مسنون نہیں اور نماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائیگی یہاں تک کہ سر جب باہر ہوا تھا اس وقت چیختا تھا مگر اکثر حصہ نکلنے سے پیشتر مرگیا تو نماز نہ پڑھی جائے - اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک
 " اھ( ح:4/ص:841/ نماز جنازہ کا بیان / مجلس المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی)

 اور فتاوی ھندیہ میں ہے کہ " و من استھل بعد الولادۃ سمی و غسل و صلی علیہ و ان لم یستھل ادرج فی خرقۃ لم یصل علیہ و یغسل غیر الظاھر من الروایۃ ھو المختار کذا فی الھدایۃ " اھ (ج:1/ص:159/ کتاب الجنائز /.الفصل الثانی فی الغسل / بیروت ) اور اسی میں ہے کہ " و ان مات حال ولادتہ فان کان خرج اکثرہ صلی علیہ و ان أقلہ لم یصل علیہ و ان خرج نصفہ لم یذکر فی الکتاب و یجیب أن یکون ھذا علی قیاس ما ذکرنا من الصلاۃ علی نصف المیت کذا فی البدائع " اھ( ج:1/ص:163/ کتاب الجنائز / الفصل الخامس فی الصلاۃ علی المیت / بیروت)


     واللہ تعالیٰ اعلم
            کتبہ
 اسرار احمد نوری بریلوی
 خادم التدریس والافتاء مدرسہ عربیہ اہل سنت فیض العلوم کالا ڈھونگی ضلع نینی تال اتراکھنڈ



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney