سوال نمبر 768
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کھانا وغیرہ پر فاتحہ خوانی کرنا کہاں سے ثابت ہے کیا قرآن وحدیث سے بھی ثابت ہے کہ نہیں حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی
فقط والسلام
سائل: محمد صابر رضا کشن گنج بہار
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعون الملک الوہاب
فاتحہ کا اصل معنیٰ ایصال ثواب ہے یعنی فاتحہ کا اصل مقصد ہے ثواب پہونچانا
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
" "عن سعد بن عبادة قال سعد يا رسول الله ان ام سعد ماتت فاى الصدقة افضل قال الماء فحفر بئرا وقال هذه لام سعد"
یعنی حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ سعد کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے ۔ سرکار نے فرمایا پانی تو آپ نے کنواں کھودوایا اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے یعنی اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچے۔
(ابوداؤد باب الزکاة جلد اول صفحہ ۱۹۹)
اس حدیث شریف سے یہ ثابت ہو گیا کہ کھانا یا شیرنی وغیرہ کو سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا جائز ہے اس لئے کہ صحابی رسول نے اشارئے قریب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا " هذه لام سعد " جس سے معلوم ہوا کہ کنواں ان کے سامنے تھا۔ اور سراج الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : " طعامے کہ ثواب آں نیاز کریں اس پر فاتحہ ، قل اور درود شریف پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے۔
(فتاوی عزیزیہ جلد اول صفحہ ۴۸)
اور تحریر فرماتے ہیں "اگر ملیدہ و شیربرنج بنا بر فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخوراند جائز است مضائقہ نیست ۔ " یعنی اگر مالیدہ اور چاول کی کھیر کسی بزرگ کی فاتحہ کے لئے ایصال ثواب کی نیت سے پکا کر کھلاوے تو جائز ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔
فتاوی عزیز یہ جلد اول صفحہ ۵۰
اور خود دیوبندیوں کے پیر ، دادا پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے نزدیک بھی کھانا شیرنی و غیرہ پر فاتحہ پڑھنا جائز ہے وہ لکھتے ہیں " بلکہ اگر کوئی مصلحت باعث تقیید ہیئت کذائیہ ہے تو کچھ حرج نہیں جیسا کہ بمصلحت نماز میں سورہ خاص معین کرنے کو فقہائے محققین نے جائز رکھا ہے اور تہجد میں اکثر مشایخ کا معمول ہے کہ تعامل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سلف میں تو یہ عادت تھی کہ کھانا پکا کر مسکین کو کھلا دیا اور دل سے ایصال ثواب کی نیت کرلی متأخرین نے یہ خیال کیا کہ جیسے نماز۔ میں نیت ہر چند دل سے کافی ہے مگر موافقت قلب ولسان کے لئے عوام سے کہنا بھی مستحسن ہے اسی طرح اگر یہاں زبان سے کہ لیا جائے کہ اللہ اس کھانے کا ثواب فلاں شخص کو پہنچ جائے تو بہتر ہے پھر کسی کو خیال ہوا کہ لفظ اس کا مشارالیہ اگر روبرو موجود ہوتو زیادہ استحضار قلب ہو تو کھانا روبرو لانے لگے کسی کو یہ خیال ہوا کہ ایک دعا ہے اس کے ساتھ اگر کچھ کلام الہی بھی پڑھا جائے تو قبولیت دعا کی بھی امید ہے کہ اس کلام کا ثواب بھی پہنچ جائے کہ جمع بین العباد تین ہے۔ چہ خوش بود بر آید بیک کر شمہ دوکار قرآن کی بعض سورتیں بھی جو لفظوں میں مختصر اور ثواب میں بہت زیادہ ہیں پڑھی جانے لگیں، کسی نے خیال کیا کہ دعا کے لئے رفع یدین سنت ہے ہاتھ بھی اٹھانے لگے کسی نے خیال کیا کہ کھانا جو مسکین کو دیا جائے گا اس کے اس کے ساتھ پانی دینا بھی مستحسن ہے کہ پانی پلانا بڑا ثواب ہے اس پانی کو بھی کھانے کے ساتھ رکھ لیا پس ہیئت کزائیہ حاصل ہوگئی ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ صفحہ ٦) اور حاجی صاحب آگے لکھتے ہیں : " گیارہویں شریف حضرت غوث پاک قدس سرہ اور دسواں، بسواں، چہلم و ششماہی و سالیانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی رحمہ اللہ تعالی علیہ اور سہیہ منی حضرت شاہ بوعلی قلندر رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ وحلوائے شب برائت و دیگر ثواب کے کام اسی قاعدہ پر مبنی ہے "
( فیصلہ ہفت مسئلہ صفحہ ۷ )
بحوالہ فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ نمبر ۲۸۷ /۲۸۸ (باب طعام المیت وایصال الثواب کا بیان)
واللہ اعلم باالصواب
کتبــــــــــــــــــــــــــہ
محمــــــــــــــــــــد
معصـوم رضا نوری
منگلور کرناٹک انڈیا
۴ شعبان المعظم ١٤٤١ھ_
0 تبصرے