آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

شب برأت کی رات قبرستان جانا کیساہے؟

سوال نمبر 795

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ:-- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شب برأت کی رات قبرستان جانا کیسا ہے؟
 مع حوالہ تحریر فرمائیں؟
المستفتی:۔ صابر علی لدھیانہ





 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوہاب 
زیارت قبور جائز اور مستحسن ہے حدیث شریف میں ہے ”عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  ﷺ نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوھَا۔
(مسلم جلد اول کتاب الجنا ئز صفحہ ۳۱۴،مشکوٰۃ باب زیارۃ القبور الفصل الاول صفحہ ۱۵۴)

ترجمہ:۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لہٰذا (اب تمہیں اجازت دیتا  ہو ں کہ) ان کی زیارت کیا کرو۔

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں زیارت قبورکے فوائد بتاتے ہوئے مصطفے جان رحمت  ﷺ نے فرما یا۔
”نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَا رَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُزَھِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الْاٰخِرَۃَ“
(ابن ما جہ جلد اول ابواب ماجاء  فی الجنا ئز صفحہ ۱۱۲،مشکوٰۃ باب زیارت القبورالفصل الثالث صفحہ۱۵۴)

ترجمہ:-- میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لہٰذا (اب تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ) ان کی زیارت کرو اس لئے کہ قبروں کی زیارت دنیا سے بیزار کرتی ہے اور آخرت کی یا د دلاتی ہے۔ 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے انھوں نے فرمایا ”کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  ﷺ کُلَّمَا کَانَ لَیْلَتُھَا مِنْ رَّسُوْ لِ اللّٰہِ ﷺ یَخْرُجُ مِنْ اٰخِرِاللَّیْلِ اِلَی الْبَقِیْعِ“
یعنی جس رات کو رسول اللہ ﷺ ان کے یہاں قیام فرماتے تو آخر رات میں اٹھ کر مدینہ کے قبرستان
(جنت البقیع) میں تشریف لے جاتے۔
(رواہ مسلم،مشکوۃ باب زیا رۃ القبور الفصل الثا لث صفحہ ۱۵۴)

ان احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ قبرستان جانا جائز و درست ہے اور حدیث شریف سے ثابت ہے، رہی بات شب برأت کی رات میں جانا تو یہ جائز ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے 

وَعَنْ عَآئشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتَ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ اَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَخِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہ، قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی ظَنَنْتُ اِنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَاءِکَ فَقَالَ اِنَّ اللہَ تَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَآءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃ
اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) فرماتی ہیں کہ ایک (مرتبہ اپنی باری میں) رات کو میں نے سرتاج دو عالم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا (جب میں نے تلاش کیا تو) یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بقیع میں موجود ہیں (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ﷺ! مجھے خیال ہوا تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں  آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالٰی نصف ماہ شعبان کی رات
 (یعنی شعبان کی پندرہویں شب)
کو آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشتا ہے اور رزین نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ مومنین میں سے) جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوچکے ہیں انہیں بخشتا ہے۔(جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ/بحوالہ مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر ۱۲۷۲)

معلوم ہوا کہ پندرہ شعبان کو قبرستان جانا صرف جائز ہی نہیں بلکہ حضور علیہ السلام کی سنت مبارکہ بھی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتــــــــــــــــــــــــــــــــــــبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 
۱۱/ شعبان المعظم ۱۴۴۱؁ ہجری 
۶/ اپریل ۰۲۰۲؁ عیسوی  بروزپیر



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney