مال زکوۃ کو اپنے کام میں خرچ کرنا کیساہے؟

سوال نمبر 821

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مسئلہ:۔ بعدہ سلام کے عرض یہ ہے کہ زید ایک مدرسہ چلاتا ہے اور چندہ کرکے پڑھانے والوں کی تنخواہ اسی چندے سے دیتا ہے اس کے علاوہ اپنے ذاتی مصرف میں بھی لیتا ہے تو کیا اپنے ذاتی استعمال کے لئے چندہ کا روپیہ لینا جائز ہے کہ نہیں؟   کیا وہ گنہ کا حقدرا ہے یا نہیں؟مدلل جواب عنایت فرمائیں، بہت مہربانی ہوگی۔ المستفتی:۔عبد اللہ قادری






وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجواب بعون الملک الوھاب  

حضور صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی علیہ الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں چندہ دینے والے جس مقصد کے لیئے چندہ دیں اس مقصد میں وہ رقم صرف کی جا سکتی ہے دوسرے کام میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔
(فتاوی امجدیہ جلد سوم صفحہ۴۲)

اور حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ چندہ جس غرض ومقاصد کے لیئے کیا جائے اسی میں خرچ کرے۔
(فتاوی مصطفویہ جلد اول صفحہ ۴۴۴)

لہٰذا اگر چندہ تعمیر مدرسہ و مدرسین کی تنخواہ وغیرہ کے خاطر کیا گیا ہے تو حیلہ شرعی کرکے مدرسین کی تنخواہ دی جائے،  صدرالمدرسین یا ذمہ دار نہیں خرچ کرسکتے، علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ”مسجد کے لیے چندہ کیا اور اس میں سے کچھ رقم اپنے صرف میں لایا اگرچہ یہی خیال ہے کہ اس کا معاوضہ اپنے پاس سے دے دے گا جب بھی خرچ کرنا نا جائز ہے (بہار شریعت ح ۱۰/مسجد کا بیان)

اسی طرح مدرسہ کے روپیہ کو اپنے لئے نہیں خرچ کیا جا سکتا کہ وہ اس روپیہ کا امین ہے نہ کہ مالک، یونہی مال زکوٰۃ کو حیلہ شرعی کرکے ماں باپ یا اولاد کو دینا جائز نہیں اور نہ ہی اپنے کام میں استعمال کرنا جائز ہے اگر کسی نے ایسا کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگا کیونکہ حیلہ شرعی صرف انتہائی ضرورت کے وقت جائز قرار دیا گیا ہے اور یہاں کوئی ایسی ضرورت موجود نہیں ہے بغیر ضرورت کے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے کہ اس میں فقراء اور مستحقِ زکوٰۃ لوگوں کا حق مارنا اور باطل کرنا ہے وہ  حرام ہے جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے ”ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات فھی حرام“حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا۔اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں: اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے“ 
(فتح الباری،شرح صحیح بخاری،ج:۱۲،ص:۴۰۴)

اور پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں ”اگر جائز طریقے سے کسی کا حق باطل کیاجائے یا کسی باطل کو حاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے(تفہیم المسائل،ج:۲،ص:۱۷۵)
ہاں اگر زید اپنی تنخواہ لیتا ہے تو حرج نہیں اور اگر اس سے زائد لیتا ہے تو وہ شرعاً گنہگار ہے اس پر لازم ہے کہ رقم واپس کردے اور سچے دل سے توبہ کرے اور اگر ایسا نہ کرے تو اسے صدر المدرسین سے ہٹا دیا جائے یونہی اراکین میں کوئی ایسا کرتا ہے تو انھیں بھی ہٹا دیا جائے اور کسی نیک پرہیز گار کو بنایا جا ئے۔
ہاں مسلمانوں پر کوئی حادثہ آپڑا جس میں روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور اس وقت روپیہ کی کوئی سبیل نہیں ہے مگر اوقاف مسجد کی آمدنی جمع ہے اور مسجد کو اس وقت حاجت بھی نہیں تو بطور قرض مسجد سے(ومدرسہ سے) رقم لی جاسکتی ہے۔(بہار شریعت ح۱۰/مسجد کا بیان) واللہ اعلم با الصواب

کتبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 
۱۹/ شعبان المعظم۰۴۴۱؁ ہجری 
۲۵/ اپریل ۹۱۰۲؁ء بروز جمعرات






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney