آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

یہ کہنا کیسا کہ ﷲ ہی تعریف کے لائق ہے؟

سوال نمبر 841

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ زید یہ کہتا ہے کہ یا اللہ تو ہی تعریف کے لائق ہے زید کا یہ کہنا درست ہے یا نہیں ! اور اگر درست ہے تو اللہ تعالٰی کی تعریف کے علاوہ اور کسی کی تعریف کرنا کیسا ہے جواب عنایت فرمائیں 
عین نوازش ہوگی
 المستفتی نصیب علی یوپی ہند





وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعون الملک الوہاب 
صورت مسئولہ میں زید کا کہنا بالکل درست ہے بیشک ساری تعریفیں ساری خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہے مگر ایسا نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی تعریف نہیں کر سکتے بلکہ محبوبان خدا کی تعریف کرنا ہی اللہ کی تعریف ہے؛  
"ان من اجلال اللہ اکرام ذی الشیبۃ المسلم و الرجل العالم و السلطان المقسط"
"بیشک اللہ کی تعظیم ہی سے ہے بوڑھے مسلمان اور عالم مرد اور عادل بادشاہ کی تعظیم"
پس جس طرح ان تینوں کی تعظیم اللہ کی تعظیم ہے بلا شبہ یونہی اللہ کے محبوبوں کی تعریف بھی اللہ کی تعریف ہی ہے،

جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے
الحمد لله رب العلمین
ترجمہ کنز الایمان
سب خوبیاں اللہ کے لئے جو مالک سارے جہانوں کا 

ترجمہ کنزالعرفان 
سب تعریفیں اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے  
تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اس کی تعریف کرنا اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان دل یا اعضاء سے اس کی تعظیم کرنا اور ہم چونکہ اللہ عزوجل کی حمد عام طور کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے اس لئے یہ ہماری حمد شکر بھی ہوتی ہے 

حدیث شریف میں ہے 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت  ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ کی حمد کرے کچھ پئے تو اللہ کی حمد کرے 
مسلم:  کتاب الذکر٬  والدعاء باب استحباب:  حمد اللہ الخ صفحہ 1463 الحدیث 89(2734

بحوالہ تفسیر صراط الجنان جلد اول پارہ 1 صفحہ 43
[مکتبة المدینہ دعوت اسلامی]

شان حبیب الرحمن میں ہے 

ورفعنا لک ذکرک پارہ 30 سورہ الم نشرح رکوع 1 
ہم نے تہمارے لئے تہمارے ذکر بلند کیا


یہ آیت کریمہ بظاہر تو مختصر سی ہے مگر اس کے ایک ایک کلمہ میں جس قدر نعمت محبوب ہے اس کے زبان سے زبان و قلم قاصر ہیں 
رفعت کا معنیٰ ٬ رب تعالٰی نے اس بلندی کو اپنی طرف نسبت کیوں دی  کہ ہم نے آپ کا ذکر اونچا کیا اور ،لک، یعنی تہمارے لئے کیوں زیادہ فرمایا اور حضور علیہ السلام کے ذکر سے کیا مراد ہے ؟
رفعت کے معنیٰ بلندی  رفعنا کے معنی ہم نے اونچا کردیا آپ کا ذکر٬ اس اونچا کرنے کے معنے میں بہت گنجائش ہے اولا تو یہ کہ تمام بڑوں کے ذکر زمین پر مگر محبوب علیہ السلام کا چرچا زمین پر بھی آسمان پر بھی اور جنت میں بھی٬ 

فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانے  
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

(شان حبیب الرحمن صفحہ 271)
[مکتبہ اسلامیہ اردو باز لاہور]

واللہ ورسولہ اعلم باالصواب

کتبـــــــــــــہ
محمـــد معصـوم رضا نوری عفی عنہ
منگلور کرناٹک انڈیا
۲۲/ شعبان المعظم ۱۴۴۱؁ ہجری 
۱۷/ اپریل ۰۲۰۲؁ عیسوی بروز جمعہ مبارکہ



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney