آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

رمضان میں ایک کا بدلہ ستر ہے یا سات سو؟

سوال نمبر 845

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ رمضان میں ایک کا بدلہ ستر گنا ثواب ملتا ہے لیکن امام صاحب نماز ظہر کے بعد درس دے رہے تھے کہ ایک کے بدلے سات سو کا ثواب ملتا ہے تو کیا یہ درست ہے؟اگر درست ہے تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے یعنی کس کو دینے پر سات سو ملتا ہے؟ پھر جو یہ عالم یہ بیان کرے کہ ایک کا بدلہ ستر ہے ان پر کیا حکم ہے؟بینواتو جروا۔ 
المستفتی: محمدمستقیم ممبئی جری مری 





وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المجیب الوھاب

بیشک یہ بات درست ہے کہ ایک کے بدلے سات سو نیکیاں ملتی ہیں اور وہ طالب علم ہے سرکار اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سوال ہوا کہ "جو رقم فاتحہ میں صرف کیا جاتا ہے اگر اس کو طالب علم کے تعلیم دینی میں بہ نیتِ ثوابِ فاتحۂ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صرف کر دیا جائے تو بدل اُس فاتحہ سالانہ یا ماہواری کا ہوکر باعثِ خوشنودی سردارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہوگا یا نہیں؟ اور ثواب میں کمی تو نہ ہوگی؟"
تو آپ جواب میں تحریر فرماتے ہیں
 ”یہ اُس کا نعم البدل ہوگا اور ثواب میں کمی کے کیا معنی؟ اُس سے ستّر گُنا ثواب کی زیادہ اُمید ہے بطور مذکور کھانا پکا کر کھلانے یا بانٹنے میں ایک کے دس ہیں ،قال اللہ تعالیٰ ”من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا“
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے جو نیکی بجا لاتا ہے اس کے لئے اس کی دس مثل ہیں۔ (القرآن ۶ /۱۶۱)
اور طالبِ علمِ دین کی اعانت میں کم سے کم ایک کے سات سو ، قال اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے:

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

انکی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح ہے جس نے اگائیں سات بالیاں، ہر بالی میں سو دانے، اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (القرآن ۲ /۲۶۱)

درمختار میں ہے:
 فی سبیل اللہ ھو منقطع الغزاۃ و قیل الحاج و قیل طلبۃ العلم خصوصا“
"فی سبیل اللہ سے مراد وُہ غازی ہیں جن کے پاس خرچہ و اسلحہ نہ ہو، بعض نے کہا حاجی، اور بعض نے کہا اس سے خصوصاً طلبۂ علم مراد ہیں۔ ”
در مختار باب المصرف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۴۰“
(فتا وی رضویہ جلد ۱۰/ ص ۳۱۰/مطبوعہ لا ہور)

 واللہ اعلم بالصواب
کتــــــــــــــــــــــــــبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 
۸/ رمضان المبارک ۰۴۴۱؁ ہجری  
۱۳/ مئی ۹۱۰۲؁ عیسوی بروزسوموار

"اضافۂ مفیدہ" بقلم سید شمس الحق برکاتی مصباحی"

معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حکم کہ ایک نیکی کا ثواب دس یا ستر سے سات گنا تک ہوتا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہے،
یہ بھی معلوم ہو کہ تعداد جو آیات اور احادیث میں مذکور ہے توقیفی ہے برائے ترغیب ہے تحدیدی تعداد نہیں کہ اس سے زیادہ نہ ہو سکے
اور ماہِ رمضان المبارک میں اجر و ثواب میں اضافہ پر احادیث الگ سے بھی وارد ہوئی ہیں،
مثلاً "من ادّی نفلًا فی شہر رمضان فھو کمن ادّی فریضۃً فی غیرہ، و من ادّی فیہ فرضًا فھو کمن ادّی سبعین فرائض فی غیرہ، او کما قال رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم"
"یعنی جس نے رمضان المبارک میں ایک نفل کام کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے غیر رمضان میں ایک فرض ادا کیا ہو، اور جس نے اس میں ایک فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے ہوں،"

پس خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عام مہینے کے دنوں میں نیکی کا اجر و ثواب جب سات گنا اور ستر گنا سے سات سو گنا تک ہے تو رمضان المبارک میں اس کے اجر و ثواب کی کیا گنتی؟

لھذا امام صاحب کا کہنا درست و صحیح ہے( انتہی)

مولانا تاج محمد صاحب کا جواب صواب ہے اور وہ مستحق اجر و ثواب ہیں

العبد الاحقر :- سید شمس الحق برکاتی مصباحی



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney