سوال نمبر 866
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مسئلہ:- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا برش مسواک کے قائم مقام ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کے قائم مقام ہوسکتا ہے تو اس سے سنت کی ادائیگی ہوگی یا نہیں؟بینوا توجروا
المستفتی:۔محمد جنید عالم
وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المجیب الوھاب
آپ کے سوال سے بات واضح نہیں ہے کہ مطلقاً برش کرنے کے متعلق پوچھ رہے ہیں یا وضو کی سنتوں میں جو مسواک کرنے کا ذکر ہے اس کے متعلق پوچھ رہے ہیں اگر آپ کے پوچھنے کا مطلب مطلقاً ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ برش مسواک کا قائم مقام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس سے سنت کی ادائیگی ہوگی کیونکہ حضور علیہ السلام نے مسواک کی ہے نہ کہ برش اسی لئے حدیث شریف میں مسواک کا ذکر ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے ”عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَال، تَسَوَّکُوا فَإِنَّ السِّوَاکَ مَطْہَرَۃٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاۃٌ لِلرَّبِّ، مَا جَاءَنِی جِبْرِیلُ إِلَّا أَوْصَانِی بِالسِّوَاکِ، حَتَّی لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ یُفْرَضَ عَلَیَّ وَعَلَی أُمَّتِی، وَلَوْلَا أَنِّی أَخَافُ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی لَفَرَضْتُہُ لَہُمْ، وَإِنِّی لَأَسْتَاکُ حَتَّی لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ أُحْفِیَ مَقَادِمَ فَمِی“حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسواک کرو اس لیے کہ مسواک منہ کو پاک کرنے کا ذریعہ اور اللہ تعالٰی کی رضا مندی کا سبب ہے، جبرائیل جب بھی میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے مسواک کی وصیت کی، یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میرے اور میری امت کے اوپر اسے فرض نہ کر دیا جائے، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مجھے ڈر ہے کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو امت پر مسواک کو فرض کر دیتا، اور میں خود اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے ڈر ہونے لگتا ہے کہ کہیں میں اپنے مسوڑھوں کو نہ چھیل ڈالوں۔
(ابن ماجہ حدیث نمبر۲۸۹)
اور اگر آپ کے پو چھنے کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لئے کوئی مسواک نہ ہونے کی صورت میں برش کرلے تو سنت وضو ادا ہو جائے گی یا نہیں؟تو اس کا جواب ہے کہ سنت وضو ادا ہو جائے گی کیونکہ مسواک کرنے کا ماحصل ہے دانت منھ صاف کرنا جیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ اگر مسواک نہ ہو تو انگلی یا کپڑہ سے دانت صاف کرے اور ایسی صورت میں سنت وضو ادا ہو جائے گی جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں ”مسواک موجود ہوتو انگلی سے دانت مانجنا ادائے سنت و حصول ثواب کے لئے کافی نہیں،ہاں مسواک نہ ہو تو انگلی یا کھر کھرا کپڑا ادائے سنت کردے گا۔(رسالہ بارق النّور فی مقادیر ماء الطھور(۱۳۲۷ھ)
ظاہر سی بات ہے کہ کپڑا سے مطلقاً دانت صاف کرنا سنت نہیں ہے کہ سنت رسول ہو مگر سنت وضو کے لئے کافی ہے یونہی برش بھی سنت وضو کے لئے کافی ہے جیسا کہ ایک صفحہ پہلے سرکار اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں ”مسواک ہمارے نزدیک نماز کے لئے سنت نہیں بلکہ وضو کے لئے،تو جو ایک وضو سے چند نمازیں پڑھے ہر نماز کے لئے اس سے مسواک کا مطالبہ نہیں جب تک منہ میں کوئی تغیر نہ آگیا ہو ہاں اگر وضو بے مسواک کر لیا تھا تو اب وقت نماز مسواک کر لے۔
(رسالہ بارق النّور فی مقادیر ماء الطھور(۱۳۲۷ھ)
نوٹ یہ رسالہ فتاوی رضویہ جلد دوم میں موجود ہے.
اس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ مسواک کرنا یا انگلی یا کپڑے سے دانت صاف کرنا صرف منھ کے تغیر کو دور کرنے کے لئے ہے اسی لئے فرمایاکہ ”ہر نماز کے لئے اس سے مسواک کا مطالبہ نہیں جب تک منہ میں کوئی تغیر نہ آگیا“مطلب اگر تغیر آگیا ہو تو مسواک سے منھ صاف کرے اور نہ ہو نے کہ صورت میں انگلی یا کپڑہ سے صاف کرے اور ظاہر سی بات ہے کہ منھ کی صفائی برش سے بھی ہو سکتی ہے اور جس طرح بانس اور انار کے درخت کو چھوڑ کر کسی بھی پیڑ کی ٹہنی سے مسواک کرنے کا حکم ہے کہ وہ سب مسواک میں داخل ہے اسی طرح برش بھی مسواک میں داخل ہے اور اس سے سنت وضو ادا ہو جائے گی جبکہ مسواک نہ ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسواک سنت رسول ہے اور مسواک میں کڑوا پن وغیرہ رہتا ہے جس سےدانت کی صفائی کے ساتھ منھ کا بو بھی درست ہو جاتا ہے
برش سےصرف دانت صاف کیا جا سکتا ہے منھ کے بو میں کچھ اثر نہ کرے گا اسی لئے عموماً برش کے ساتھ منجن وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے اور وضو میں دانت صاف کرنا ہی مقصود ہےاسی لئے مسواک نہ ہونے پر انگلی ،کپڑا وغیرہ سے صاف کرنے کی اجازت ہے وہ کام برش سے بھی ہو جاتا ہے لہٰذا مسواک نہ ہونے کی صورت میں برش مسواک کا قائم مقام ہے اور برش سے وضو کی سنت ادا ہو جائے گی البتہ مسواک کی سنت ادانہ ہوگی۔
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
۲۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ ہجری
۲۲/ اپریل ۰۲۰۲ عیسوی بروز بدھ
0 تبصرے