کیا قرض دار مالک نصاب پر زکوٰۃ واجب ہے؟

سوال نمبر 910

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ میں اس وقت تین لاکھ کا مالک ہوں مگر اس سے زیادہ میرے اوپر قرض ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں قرض نہیں دے سکتا اب ایسی صورت میں کیا حکم ہے کیا مجھ پر ان روپیوں کی زکوٰۃ واجب ہے؟اگر واجب ہے تو میرے لئے کوئی صورت بیان کر دیں جس سے شرعی پکڑ نہ ہو۔
بینوا توجروا
المستفتی:-- اکرام الدین بہار





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
 صورت مسؤلہ میں آپ پر زکوۃ واجب نہیں کیونکہ نصاب کا دین سے فارغ ہونا شرط ہے،ہاں اگر قرض نکالنے کے بعد نصاب باقی رہتی تو زکوۃ واجب ہوتا جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں ”نصاب کا مالک ہے مگر اس پر دین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکاۃ واجب نہیں، خواہ وہ دین بندہ کا ہو، جیسے قرض، زرثمن (یعنی کسی خریدی گئی چیز کے دام) کسی چیز کا تاوان یا اللہ عزوجل کا دین ہو، جیسے زکاۃ، خراج مثلاً کوئی شخص صرف ایک نصاب کا مالک ہے اور دو سال گذر گئے کہ زکاۃ نہیں دی تو صرف پہلے سال کی زکاۃ واجب ہے دوسرے سال کی نہیں کہ پہلے سال کی زکاۃ اس پر دین ہے اس کے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتی، لہٰذا دوسرے سال کی زکاۃ واجب نہیں۔(بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 نیز فرماتے ہیں ”اگر خود مدیون (یعنی مقروض) نہیں مگر مدیون کا کفیل (یعنی مقروض کا ضامن) ہے اور کفالت کے روپئے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا، زکاۃ واجب نہیں، مثلاً زید کے پاس ہزار روپے ہیں اور عمرو نے کسی سے ہزار قرض لئے اور زید نے اس کی کفالت کی تو زید پر اس صورت میں زکاۃ واجب نہیں کہ زید کے پاس اگرچہ روپے ہیں مگر عمرو کے قرض میں مستغرق ہیں کہ قرض خواہ کواختیار ہے زید سے مطالبہ کرے اورروپے نہ ملنے پر یہ اختیار ہے کہ زید کوقید کرا دے تویہ روپے دین میں مستغرق ہیں، لہذا زکاۃ واجب نہیں۔(ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب: الفرق بین السبب والشرط والعلۃ، ج۳، ص  بحوالہ بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 یاد رہے کہ دین مانع زکوۃ اس وقت ہوگا جبکہ نصاب پر سال نہ گزارا ہو اور اگر سال گزر گیااور آپ مالک نصاب ہو گئے تو اس سال کی زکوۃ آپ پر زکوۃ واجب ہے جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں ”دین اس وقت مانع زکاۃ ہے جب زکاۃ واجب ہونے سے پہلے کا ہو اور اگر نصاب پرسال گزرنے کے بعد ہوا تو زکاۃ پر اس دین کا کچھ اثر نہیں۔(ردالمحتار,کتاب الزکاۃ، مطلب: الفرق بین السبب والشرط والعلۃ، ج۳، ص۲۱۰/ بحوالہ بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرض اگر زکوۃ واجب ہونے سے پہلے کا ہے مثلا زکوۃ واجب تیس ہزار پر ہے اور آپ کے پاس پچیس ہزار تھا پھر آپ نے دس ہزار قرض لے لیا اب مکمل پینتیس ہزار ہو گیا اور زکوۃ تیس ہزار پر واجب ہے مگر چونکہ اس میں آپ کا پچیس ہی ہے دس قرض کا ہے اس لئے آپ پر قرض واجب نہ ہو گا،اور اگر آپ کے پاس پینتیس ہزار تھا ایک سال مکمل ہو گیا ابھی زکوۃ نہیں دئے تھے کہ دس ہزار خرچ ہو گیا پھر دس ہزار قرض لئے اور مکمل پینتیس ہو گیا یا پندرہ ہزار قرض لئے کہ مکمل چالیس ہزار ہو گیا چونکہ قرض دینے کے بعد آپ کے پاس پچیس ہزار بچے گا مگر پھر بھی آپ پر پینتیس ہزار کی زکوۃ واجب ہے کیونکہ آپ کے پینتیس ہزار پر سال گزر چکا ہے اور زکوۃ واجب ہو چکی ہے اگر چہ اب نہیں ہے. واللہ اعلم بالصواب

 کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۸/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ
۱/ مئی ۲۰۲۰ بروز  جمعہ






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney