جو مالک نصاب نہ ہو کیا وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے؟

سوال نمبر 913

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید مالک نصاب نہیں ہے یعنی اس کے پاس نہ سونا ہے نہ چاندی ہے نہ ہی مال تجارت ہے اور نہ ہی اتنا رقم ہے جو نصاب کو پہونچ جائے البتہ دو بائیک (bike) اور ایک اسکارپیو(scorpio) ہے کیا ایسی صورت میں زید پر زکوٰۃ واجب ہے اور اگر نہیں تو کیا زید زکوٰۃ لے سکتا ہے؟ بینوا توجروا
المستفتی:۔ مولانا جاوید رضا نیپال




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
 صورت مسؤلہ میں زید پر نہ زکوٰۃ واجب ہے اور نہ ہی وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے کیونکہ نصاب دو طرح کے ہیں ایک یہ کہ جب کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی قیمت کا کوئی سامان حاجت اصلیہ سے ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے جیسے مال تجارت سونا چاندی روپیہ وغیرہ، دوسرا نصاب یہ ہے کہ گاڑی کتاب، برتن، فریج وغیرہ اگر ضرورت سے زائد ہیں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہا ہے تو وہ مال زکوٰۃ نہیں لے سکتا ہے اگرچہ ان چیزوں کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، مثلاً زید کے پاس پچاس ہزار کی ٹی وی ہے،یہ حاجت اصلیہ میں نہیں ہے مگر اس پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے زید زکوٰۃ نہیں لے سکتا، یونہی کسی کے پاس دو گاڑی ہے ایک ضرورت کے تحت دوسرا زائد تو زائد ہونے کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ نہیں اگر چہ نصاب سے زائد کی قیمت کی ہو مگر اس کے ہوتے ہوئے زید زکوٰۃ نہیں لے سکتا، یونہی برتن جو گھر میں ضرورت سے زائد ہیں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہی ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں مگر اس کے ہوتے ہوئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں جیسا کہ علا مہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ”اہل علم کے لئے کتابیں حاجت اصلیہ سے ہیں اور غیر اہل کے پاس ہوں، جب بھی کتابوں کی زکوٰۃ واجب نہیں جب کہ تجارت کے لیے نہ ہوں، فرق اتنا ہے کہ اہل علم کے پاس ان کتابوں کے علاوہ اگر مال بقدر نصاب نہ ہو تو زکوٰۃ لینا جائز ہے اور غیر اہل علم کے لئے ناجائز، جب کہ دو سو درم قیمت کی ہوں“(بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 نیز فرماتے ہیں ”حافظ کے لیے قرآن مجید حاجت اصلیہ سے نہیں اور غیر حافظ کے لیے ایک سے زیادہ حاجت اصلیہ کے علاوہ ہے یعنی اگر مصحف شریف دو سو درم(ساڑھے باون تولہ شاندی کی) قیمت کا ہو تو زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔
 (الجوہرۃ النیرۃ''، کتاب الزکاۃ، ص ۱۴۸/ بحوالہ بہار شریعت ح زکوٰۃ کا بیان)

 چند سطر بعد فرماتے ہیں ”اہل وہ ہے جسے پڑھنے پڑھانے یا تصحیح کے لیے ان کتابوں کی ضرورت ہو، کتاب سے مراد مذہبی کتاب فقہ و تفسیر وحدیث ہے، اگر ایک کتاب کے چند نسخے ہوں تو ایک سے زائد جتنے نسخے ہوں اگر دو سو درم کی قیمت کے ہوں تو اس اہل کو بھی زکوٰۃ لینا ناجائز ہے، خواہ ایک ہی کتاب کے زائد نسخے اس قیمت کے ہوں یا متعدد کتابوں کے زائد نسخے مل کر اس قیمت کے ہوں۔  (الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، مطلب فی زکاۃ ثمن المبیع وفاء، ج۳، ص۲۱۷ / بحوالہ بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن چیزوں کا شمار حاجت اصلیہ میں ہوتا ہے اگر وہ چیزیں ضرورت سے زائد ہوں اور انکی قیمت نصاب کو پہونچ رہا ہو تو زکوۃ کا لینا جائز نہیں ہے،اور نا ہی اس پر زکوٰۃ کا دینا واجب ہوگا، خواہ وہ برتن ہو،یا گاڑی ہو،یا کتاب ہو،یا فریج وغیرہ یا اور کوئی سامان،البتہ قربانی اور صدقہ فطر واجب ہوگاواللہ اعلم بالصواب


کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۱۱/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ ھ
۵/ مئی ۲۰۲۰ بروز منگل






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney