کیا غریبوں کو کھانا کھلانے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟

سوال نمبر 914

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ماہ رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی رقم سے افطاری کرانے سے کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ یوں ہی لاک ڈاؤں کی وجہ سے غریب مسلمانوں کو کھانا کھلانے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں؟
بینوا توجروا
المستفتی:-- عبد الرزاق بلرام پور




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المک الوہاب
 افطار کرا دینے سے یا کھانا کھلا دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہو گی اولا تو کھانے والے سب فقیر نہیں رہتے دوم اگر بالفرض سب فقیر ہوں جب بھی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی کیونکہ تملیک شرط ہے اور کھلا دینے سے مالک کر دینا نہ پایا گیا ہاں اگر فقیر کو دے کر مالک بنا دے کہ یہ تمہارا ہے اب کھائے یا کسی کو کھلائے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں ”مباح کر دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، مثلاً فقیر کو بہ نیت زکوٰۃ کھانا کھلا دیا زکوٰۃ ادا نہ ہوئی کہ مالک کر دینا نہیں پایا گیا، ہاں اگر کھانا دے دیا کہ چاہے کھائے یا لے جائے تو ادا ہوگئی۔ یوں ہی بہ نیت زکوٰۃ فقیر کو کپڑا دے دیا یا پہنا دیا ادا ہوگئی۔ (الدرالمختار''معہ''ردالمحتار''، کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۰۴/بحوالہ بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان)

 چونکہ لاک ڈاؤن میں بہت سے مسلمان پھنسے ہوئے ہیں جو کھانے کے لئے ترستے ہیں ایسے وقت میں ان کو کھلانا بہت بڑا ثواب ہے اگر غیر زکوٰۃ سے یہ کام نہ ہوسکتا ہو تو مال زکوٰۃ کو صرف کر سکتے ہیں مگر اس میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ کھانے کے لئے نہ کہیں بلکہ دیکر مالک بنا دیں،دوسری بات جس کو دیں وہ عاقل سمجھدار ہو اس پر قبضہ کرنا جانتا ہو اتنا بھی چھوٹا بچہ یا پاگل نہ ہو کہ اسے پھینک یاقبضہ نہ جما سکے خواہ کھانا ہو یا کپڑہ یا روپیہ وغیرہ اس پر قبضہ کرنا ضروری ہے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرما تے ہیں ”مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھائے ورنہ ادا نہ ہوگی، مثلاً نہایت چھوٹے بچہ یا پاگل کو دینا اور اگر بچہ کو اتنی عقل نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو یا وصی یا جس کی نگرانی میں ہے قبضہ کریں۔(بہار شریعت ح زکوۃ کا بیان) 

 بہتر طریقہ یہ ہے پہلے مال زکوٰۃ کو حیلہ شرعی کروا لیں یعنی کسی غریب کے ہاتھ کوئی سامان بیچ دیں مثلاً ایک لاکھ کا حیلہ کروانا ہے تو کسی غریب یعنی جو مستحق زکوٰۃ ہو اس کے ہاتھ کوئی سامان
(کپڑا وغیرہ جو اس کے کام آسکے)ادھار ایک لاکھ کا بیچ دیں اور وہ کپڑا اس کو دے دیں اب وہ ایک لاکھ قرضہ ہوگیا،پھر ایک لاکھ اس کو زکوٰۃ کا روپیہ دے دیں یہ کہکر کہ یہ مال زکوٰۃ ہے میں نے آپ کو دیا یہ آپ کا ہوگیا جب وہ اس پر قبضہ جما لے اس کے بعد اس کو کہیں کہ ایک لاکھ کو جو سامان خریدنے کا قرضہ آپ کے ذمہ ہے وہ دے دو،دے دیا تو ٹھیک ورنہ مار کر بھی چھین سکتے ہیں کیونکہ اب وہ مال زکوٰۃ نہیں بلکہ قرض لے رہا ہے۔

 پھر اس رقم سے جو کچھ خریدنا ہو مثلاً دال چاول مسالہ وغیرہ خرید کر غریبوں میں تقسیم کردیں اب کوئی شرط نہیں بلکہ ہر چھوٹے بڑے کو دے سکتے ہیں یوں ہی پاگل بے عقل کو بھی دے سکتے ہیں مگر انہیں ہی دیاجا ئے اس کو استعمال میں لا سکیں اور صحیح معنوں میں اس کے مستحق ہوں اگر چہ وہ مالک نصاب ہوں مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے مجبور ہوں وقت پر کھانے کو نہ ہو تو انہیں بھی دے سکتے ہیں،جیسے شریعت نے مسافر کو بوقت ضرورت مال زکوٰۃ کھانے کی اجازت دی ہے۔

الانتباہ:۔ حیلہ شرعی کا جو طریقہ میں نے بیان کیا ہے یہ صرف اورصرف ضرورت کے تحت ہے اس طرح حیلہ کرکے نہ تو کوئی خود کھا سکتا ہے نہ ہی مالدار کو کھلا سکتا ہے کونکہ حرام ہے۔

کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی 

۸/ رمضان المبارک ۱۴۴۱ ھ
۱/ مئی ۲۰۲۰  بروز  جمعہ






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney