حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح کس تاریخ کو ہوا تھا؟

سوال نمبر 922

السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح کس تاریخ کو ہوا تھا جواب عنایت فرمائیں  ایک صاحب   کا  سوال ہے    جواب دینا ہے  حضرت جلد بتادیں





وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
الجواب بعون الملک الوہاب
نکاحِ سیدہ فاطمہ زھراء کی مقرر و متعین  تاریخ تو مجھے معلوم نہ ہوسکی البتہ سن اور مہینہ کے اعتبار سے مکمل تفصیل درج ذیل ملاحظہ کریں
2 ھ میں فاطمہ زھرا رضی اللہ تعالیٰ کا نکاح حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کےساتھ ہوا،، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی ولادت بقول صحیح ، اظہار نبوت سے پانچ سال پہلے ہے . جس وقت کہ قریش خانہ کعبہ کی دراڑ آنے کی وجہ سے تعمیر کر رہے تھے - حضرت علی سے سیدہ فاطمہ کا نکاح 2 ھ کی رمضان المبارک میں ہوا اور اسکی بناء ماہ ذوالحجہ میں ہے، بعض کہتے ہیں کہ ماہ رجب میں نکاح ہوا، بعض کہتے ہیں ماہ صفر میں ہوا ،بعض کہتے ہیں غزوہ احد کے بعد ہوا، جیساکہ جامع الاصول میں ہے - بوقت نکاح سیدہ فاطمہ کی عمرشریف سولہ سال اور بعض کے نزدیک اٹھارہ سال تھی - اور حضرت علی کی عمر مبارک اس وقت اکیس 21 سال پانچ ماہ تھی - روایتوں میں آیا ہے کہ سیدہ فاطمہ کیلیۓ حضرت ابو بکر صدیق نے ، پیام دیا تھا اور حضور کریم ﷺنے علت بیان کرتے ہوئے فرمایا میں انکے نکاح میں وحی کا انتظار کر رہا ہوں اسکے بعد حضرت عمر فاروق نے پیام دیا انکو بھی اسی طرح جواب مرحمت فرمایا- مشکوة میں مروی ہے حضرت ابو بکر و عمر نے انکے لیۓ پیام دیا تو حضورﷺنے فرمایا وہ خورد سال ہے - پھرام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضرت علی کو ترغیب دی - روضة الاحباب میں کہا گیا ہے کہ صحابہ نے ان سے کہا آپ حضورﷺکے اہل اور خواص میں سے ہیں آپ جاکر انکے لیۓ حضورﷺکو پیام دیں - حضرت علی نے فرمایا رسول اللہ ﷺسے اس بارے میں شرم رکھتا ہوں اور فرمایا جب حضورﷺنے حضرت ابو بکر و عمر کا پیام رد فرمایا تو میرا پیام کیوں قبول فرماٸیں گے؟ صحابہ نے کہا آپ حضورﷺکی بارگاہ میں بہت زیادہ مقرب ہیں اور حضوﷺکے چچا ابو طالب کے فرزند ہیں - جاٶ اور شرم نہ کرو اسکے بعد حضرت علی ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آپ کو سلام کیا۔ اور حضورﷺنے سلام کا جواب دیتے ہوۓ فرمایا ابو طالب کے فرزند کیا بات ہے؟ کیسے ہمارے پاس آنا ہوا ؟ عرض کیا اس لیۓ حاضر ہوا ہوں کہ میں فاطمہ کا پیام اپنے لیۓ پیش کروں ،اس پر رسولﷺنے مرحبا و اہلا فرمایا اور اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا ،حضرت انس سے روایت ہے اس وقت میں رسول اللہﷺکے پاس موجود تھا اس وقت حضورﷺپر وہ کیفیت طاری ہوٸی جو نزول وحی کے وقت طاری ہوتی ہے اور حضورﷺاس میں مستغرق ہوگئے اسکے بعد جب وہ کیفیت دور ہوٸی اور حضورﷺ اپنے حال میں واپس آئے تو فرمایا ،،اۓ انس رضی اللہ عنہ -  رب العرش کے پاس سے میرے حضور جبراٸیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردو ، تو اے انس جاٶ اور حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و طلحہ و زبیر اور جماعت انصار کو بلا لاٶ ! جب یہ سب حاضر ہوگئے تو حضورﷺنے بلیغ خطبہ پڑھا پھر حمد الٰہی میں فرمایا اس پر رب العزت کی حمد و ثنا ہے اور نکاح کی ترغیب دی، اسکے بعد فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ چار سو مثقال چاندی پر مہر عقد باندھا اور فرمایا،، اے علی تم قبول کرتے ہو اور راضی ہو؟ حضرت علی نے عرض کیا میں نے قبول کیا اور میں راضی ہوں - پھر حضورﷺ نے ایک طباق کھجوروں کا لیا اورجماعت صحابہ پر بکھیر کر لٹایا- اس بنا پر فقہاء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ شکر و بادام کا بکھیر کر لٹانا عقد نکاح کی ضیافت میں مستحب ہے" مدارج النبوت حصہ دوم صفحہ 108 تا 109


کتبہ
عبیداللہ بریلوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney