سوال نمبر 987
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:-- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جنازہ قبرستان پہونچانے کے بعد وہاں پر تقریر اور نعت پڑھنا کیسا ہے ؟کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جنازہ پڑھ کر فوراً دفن کر دینا چاہئے ۔بینوا تو جروا
المستفتی:۔محمد اسلام الدین
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
قبرستان پر تقریر کرنا یا نعت پڑھنا جائز ہے اور یہ ہر جگہ کا رواج ہے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو کفن دفن کے مسائل سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے اور سب سے بڑا جو فائدہ ہوتا ہے کہ تمام لوگ جنازہ میں شریک ہو جاتے ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جنازہ کے ساتھ شریک نہیں ہو پاتے ہیں بلکہ بعد میں آتے ہیں اور جو جنازہ کے ساتھ آتے ہیں ان میں بہت سے بے وضو ہوتے ہیں پھر دوران تقریر وضو سے فارغ ہولیتے ہیں فقیر کا مشاہدہ ہے کہ اکثر قبر ستان میں ایک یا دو نل ہوتے ہیں اور لوگوں کی تعداد سیکڑوں کے برابر ہوتی ہے اب اگر فوراً دفن کر دیا جائے تو وہ لوگ شریک ہونے سے محروم رہ جائیں گے حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّه يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ، تَابَعَهُ عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ‘‘
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہوگا جیسے احد کا پہاڑ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔ روح کے ساتھ اس حدیث کو عثمان مؤذن نے بھی روایت کیا ہے۔ کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن سیرین سے سنا، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اگلی روایت کی طرح۔(صحیح بخاری الایمان حدیث نمبر۴۷)
اس لئے اتنے وقت تک تقریر کرنا کہ لوگ وضو سے فارغ ہو جا ئیں درست ہے شرعا کوئی حرج نہیںاور ایک دوسری حدیث میں حضرت کریب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے فر ما تے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہ کے فرزند ار جمند فوت ہو گئے تو آپ نے فر ما یا اے کریب !دیکھو کتنے لوگ جمع ہوگئے ہیں ؟ حضرت کریب فر ما تے ہیں کہ میں گیاتو کچھ لوگ جمع ہو ہی گئے تھے میں نے (حضرت عباس کو ) خبردی توفر ما یا کیا تم کہہ سکتے ہو کہ چا لیس ہوں گے؟ میں نے کہا ہاں ،فر ما یا میت لا ؤ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے مَا مِنْ رَجُلٍ مُّسْلِمٍ یَمُوْتُ فَیَقُو مُ عَلیٰ جَنَا زَتِہٖ اَرْبَعُوْنَ رَجَلًا لَا یُشْرِکُو نَ بِا اللّٰہِ شَیْأً اِلَّا شَفَّعَھُمُ اللّٰہُ فِیْہِ جب کو ئی مسلمان مر جائے اور اس پر چالیس آدمی کھڑے ہوں جو اللہ کا کو ئی شریک نہ بتا تے ہوں تو اللہ تعا لی ان کی سفارش اس (میت)کے حق میں قبول فر ما تا ہے ۔( رواہ مسلم ،مشکوٰۃ با ب مشی با لجنا زۃ والصلوۃ علیہا الفصل الاول صفحہ ۱۴۵)
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جنازہ پہلے تیار تھا مگر لوگ ضرورت سے فارغ نہیں ہو ئے تھے اس لئے جنازہ کی نماز نہ پڑھی گئی جب لوگ ضرورت سے جمع ہو کر فارغ ہوگئے تو حضرت کریب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ سب آ گئے ہیں تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ اداکی البتہ ضرورت سے فارغ ہو نے کے بعد لمبی تقریر کر نا یا جنازہ پڑھنے کے بعد تقریر کرنا درست نہیں ہے کہ یہ بلا وجہ تاخیر کرناہےحدیث شریف میں ہے’’عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمْرَ قَا لَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ اِذَا مَاتَ اَحَدُکُمْ فَلَا تَجْلِسُوْ ہُ وَاَسْرِعُوْا اِلٰی قَبْرِہٖ‘‘حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے فر ما تے ہیں کہ میں نے نبی پاک ﷺ کو فر ما تے سنا کہ جب کو ئی مر جا ئے تو اسے روک نہ رکھو اس کی قبر تک جلدی پہونچاؤ۔ (مشکوٰۃباب دفن ا لمیت الفصل الثالث صفحہ۱۴۹)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تک لوگ وضو سے فارغ نہ ہوں تقریر کرنا درست ہے اور جب لوگ وضو سے فارغ ہو جائیں تو تقریر بند کردینی چاہئے یونہی بعد نماز جنازہ تقریر نہیں کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم با الصواب
ازقلم
فقیر تاج محمد قادری واحدی
0 تبصرے