آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

سوشل میڈیا پر فتویٰ چوری کرنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1073


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مسئلہ:- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا دوسرے کا پوسٹ یعنی دینی فتوی چوری کرنا گناہ ہے ؟ اور اس پر بھی وعیدیں ہیں ؟کیا دین کی خدمت سمجھ کر چوری کر سکتے ہیں یعنی مجیب کا نام کاٹ کر اپنا نام ڈال سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو بزرگوں کی کتابوں سے اخذ کیوں کیا جا تا ہے ؟

بینوا تو جرو

المستفتی:- سلمان رضا قادری




 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

ہاں دوسرے کا پوسٹ یعنی دینی فتویٰ چوری کرنا گناہ ہے جب کہ چوری کرنے والا صاحب فتویٰ سے اجازت نہ لیا ہو یا جس کے فتوے کو نقل کیا ہے اس کی طرف منسوب نہ کیا ہو تو اس طرح چوری کرنا گناہ ہے اور اس کے بارے میں وعیدیں بھی ہیں اور دینی خدمات کے لئے بھی کسی کے فتوے کو من وعن چوری کرکے اپنا نام بلا اجازت ڈالنا درست نہیں ہے اور رہی بات بزرگوں کے کتابوں سے اخذ کرنا تو یہ ہم اس وجہ سے اخذ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اکابرین ہیں اور ان کے کتابوں سے اخذ کرنے سے پہلے ہم اپنا جملہ اور مفہوم بیان کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں تاکہ فتویٰ بھی مدلل ہوجائے تو اس طرح کرنا جائز ہے یعنی کسی کے پوسٹ کو خواہ کتابوں  کے ذریعہ ہو یا واٹش ایپ کے ذریعہ صاحب فتویٰ کی طرف منسوب کرنے یا اجازت لینے کو چوری نہیں کہیں گے بلکہ اس کو دلیل کہیں گے اور اس طرح کرنا جائز و درست ہے۔

اور چوری کے تعلق سے قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد:- والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا نکالا من اللہ۔واللہ عزیز حکیم۔ 

(پارہ ۶، سورۃ المائدہ، آیت ۳۸)

ترجمہ:- اور جو مرد یا عورت چور ہو تو اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر ان کے عمل کے بدلے میں ان کے ہاتھ کاٹ دو، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں چور کی سزا بتائی گئی ہے کہ شرعی اعتبار سے جب چوری ثابت ہو جائے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا مگر ہاتھ کاٹنے کے لئے کچھ  شرط ضروری ہے یعنی دس درہم یا اس سے زائد کی کوئی ایسی چیز جو جلدی خراب ہونے والی نہ ہو چھپ کر کسی شبہہ یا تاویل کے بغیر اٹھا لینے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا ورنہ نہیں۔ اور فتویٰ چوری کرنے والے کا ہاتھ تو نہیں کاٹا جائے گا البتہ اس کے ارتکاب کرنے والے کو چور ضرور کہا جائے گا۔

اور چور کے تعلق سے حدیث پاک میں سخت وعیدیں آئی ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: چور چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔ (مسلم شریف ، کتاب الایمان صفحہ ۴۸ حدیث نمبر ۱۰۰)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر اس نے ایسا کیا (یعنی چوری کی) تو بے شک اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اتار دیا پھر اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ (نسائی کتاب قطع السارق صفحہ ۷۸۳ حدیث نمبر ۴۸۸۲) 


 اور بہار شریعت میں ہے: مصحف شریف چورایا تو قطع نہیں اگرچہ سونا چاندی کا اس پہ کام ہو ۔ یونہی کتب تفسیر و حدیث وفقہ ونحو ولغت واشعار میں بھی قطع نہیں ۔ (بہار شریعت جلد دوم حصہ نہم صفحہ ۴۱۸ باب چوری کی حد کا بیان مکتبہ مجلس المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی) 


لہٰذا معلوم ہوا کہ کسی شخص کی لکھی ہوئی تحریر کو بغیر اجازت من و عن اپنے نام سے منسوب کرنا یہ امانت میں خیانت ہے ۔ اور یہ گناہ عظیم ہے ۔ اور گناہ عظیم کا مرتکب فاسق ہے اور فاسق کے قول وفعل کا شریعت میں اعتبار نہیں ۔ اب جو شخص ایسا ہو تو اس پر علانیہ توبہ واستغفار کرنا لازم ہے ۔


           کتبہ

 غلام محمد صدیقی فیضی

متعلم (درجہ تحقیق سال دوم) دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف سدھارتھ نگر یوپی الہند


۱۲/ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری

مطابق ۳۰/ ستمبر ۲۰۲۰ بروز بدھ




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney