سوال نمبر 1090
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ اگر کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے لئے قبر کھودی جاتی ہے تو کیا اس وقت تک کھود نے والا شخص وہیں پر رہے گا جب تک کہ مردے کو دفنا نہ دیا جائے بات یہ ہے کہ آج جو عوام میں مشہور ہے کہ قبر کے پاس ایک آدمی کا رہنا ضروری ہے کیا صحیح ہے کیا غلط جواب عنایت فرمائیں
المستفتی محمد نوازش رضا مظفر پور بہار
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
شریعت مطہرہ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے یہ لوگوں کی جہالت ہے من گھڑت باتیں ہیں وہاں رہنا ضروری نہیں ہےہاں قبر جب تک تیار نا ہو جائے تو گھر کا کوئی فرد وہاں رہے تاکہ کسی چیز کی ضرورت پیش آ جائے تو دے سکے اور قبر تیار ہو جائے تو قبر کو دیکھ بھال کرنا ضروری نہیں ہے
ہاں! اگر نقصان پہونچنے کا صحیح اندیشہ ہو یعنی قبرستان میں چار دیواری نا ہو اور لوگوں کی آمد ورفت ہو اور بچوں یا ضعیفوں کے گر جانے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت ایک شخص وہاں رک جائے تو بہتر ہے لیکن فقط قبر کی دیکھ بھال کے لیے وہاں رکنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب جنازہ کا وقت ہوجائے تو جنازے میں شریک ہوجائے،
چونکہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے
اور حدیث شریف میں جنازے میں شرکت کے متعلق بڑی فضیلت آئی ہے
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا، فَإِنَّه يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ، الخ۔۔۔۔
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہوگا جیسے احد کا پہاڑ الخ۔۔۔۔۔
(صحیح بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر٤٧)
لہٰذا معلوم ہوا کہ جنازے میں شرکت کرنا بہت بڑا ثواب ہے جب کہ قبر کی دیکھ بھال کے متعلق نا کوئی حدیث ہے ناہی کوئی فضیلت،
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ
۸ صفر المظفر ۱٤٤٢ہجری
۲٦ستمبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز شنبہ
0 تبصرے