مقروض کی قربانی مانی جائے گی یا نہیں؟

 سوال نمبر 1402


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ذیل کے مسئلے میں کہ اگر کوئی شخص کسی انسان کا قرض دار ہو یا اس کے ذمہ امام کی تنخواہ باقی ہو  اور قربانی کروانا چاہتا ہے تو کیا اس کی قربانی مانی جائے گی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں 

المستفتی : محمد نظام الدین نظامی پیپرا گوتم بستی





وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الجواب اللھم ھدایة الحق و الصواب:

   اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتاوی رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں کہ: جس شخص پر اتنا دین یعنی قرض ہو کہ اسے ادا کرنے کے بعد اپنی حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ چھپن روپئے کے مال کا مالک نہ رہے گا تو اس پر قربانی واجب نہیں۔  

 دوسری جگہ اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

قربانی واجب ہونے کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ ٥٦ روپیہ کے مال کا مالک ہو چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل یا بھینس یا کاشت، البتہ کاشت کار کے ہل بیل اس کی حاجتِ اصلیہ میں داخل ہیں ان کا شمار نہ ہوگا      

(فتاوی رضویہ جلد ٨   ص ٣٩٣)

     (ایسا ہی احکام شریعت حصہ دوم  مطبوعہ لاہور صفحہ   ١٧٧ میں ہے)


 لہٰذا اگر اس شخص پر اتنا قرض ہو خواہ کسی شخص کا ہو یا امام صاحب کی تنخواہ کا ہو کہ اس کو ادا کرنے کے بعد حاجاتِ اصلیہ کے علاوہ      مالک نصاب نہ رہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہاں اگر ایسی حالت میں قربانی کرے گا تو قربانی نفلی ہو جائے گی اور ثواب پاٸے گا۔    

و اللہ تعالی اعلم بالصواب  


 کتبہ: محمد شکیل احمد رضوی

  ٢١ جمادی الاخری ١٤٤٢ ھ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney