ایک مکان کو بیوی دو لڑکے اور تین لڑکیوں میں کیسے تقسیم کیا جائے؟

 سوال نمبر 1107


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسئلہ:- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ  ذیل میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ہے اور اس کے پاس صرف ایک مکان تھا اور اسکی بیوی تین لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں اب مکان کو کیسے تقسیم کیا جائے؟ بینوا و توجروا 

المستفتی:۔قاری عبدالعظیم مونڈابزگ لکھیم پور

 



وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 الجــــــــوابــــــــــ بعون الملک الوہاب

اگر مکان بڑا ہو اس قدر کہ سب باٹنے کے بعد رہ سکیں گے تو مندرجہ ذیل قاعدے کے اعتبار سے تقسیم کر لیں ،اور اگر اس قدر نہ ہو کہ سب لے سکیں تو اس میں دونوں لڑکے حصہ لے لیں اور بیوی و لڑکیوں کو اس کا معاوضہ (رقم) دے دیں ۔یا پھر اس مکان کو بیچ کر رقم لے لیں ۔

اگر قرض و وصیت ہو تو پہلے متوفی کے مال سے قرض و ’’وصیت من الثلث‘‘ نکالا جائے بقیہ رقم کو آٹھ حصہ کیا جائے ایک حصہ بیوی کو دے دیا جائے کیوں کہ اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے

وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ۔فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو،پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر۔

(سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)

بقیہ سات حصہ میں ایک، ایک حصہ تینوں لڑکیوں کو دے دیا جائے اور دو ،دو حصہ دونوں لڑکوں کو دے دیا جائے کیوں کہ لڑکیوں کے بنسبت لڑکوں کا دو حصہ ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِىْٓ اَوْلَادِكُمْ  ‌ۖ   لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے ۔ (کنز الایمان سورہ نساء آ یت نمبر ۱۱)


واللہ اعلم بالصواب

         ازقلم   

تاج محمد قادری واحدی







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney