سوال نمبر 1111
الســـلام علــیکم ورحــمۃاللہ وبــــرکاتہ
کیافرماتےہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ امام رکوع میں ہو تو آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھے گا یا سیدھے رکوع میں جائیگا
المستفتی محمد آمان رضا قادری
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
تکبیر تحریمہ کے بعد دوسری تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور اگر تکبیر تحریمہ نہیں کہا اور رکوع میں چلا گیا یا صرف یا تکبیر کہا تو نماز نہیں ہوئی۔کیونکہ اسے دو تکبیر کہنے کا حکم ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ اگر اس نے تکبیر تحریمہ کہی یعنی سیدھے کھڑے ہوئے تکبیر کہی کہ ہاتھ پھیلائے تو زانو تک نہ جائے تو نماز ہوگئی اور اگر تکبیر انتقال کہی یعنی جھکتے ہوئے تکبیر کہی تو نماز نہ ہوگی اسے دو تکبیر کہنے کا حکم ہے تکبیر تحریمہ اور تکبیر انتقال، پہلی تکبیر تحریمہ قیام کی حالت میں اور دوسری تکبیر انتقال رکوع کو جاتے ہوئے۔ درمختار میں ہے:
لو وجد الامام راکعا فکبر منحنیا ان الی القیام اقرب صح ولغت فیہ تکبیرۃ الرکوع ۱؎۔
اگرکسی نے امام کو حالت رکوع میں پایا تو اس نے جھکتے ہوئے تکبیر کہی اگر یہ مقتدی قیام کے زیادہ قریب ہو تو درست ہے اور اس کی تکبیر رکوع لغو ہو جائے گی۔
حوالہ فتاوی رضویہ ج ۷ ص ۱۹۳ تا ۱۹۴ دعوت اسلامی۔
اور بہار شریعت میں ہے کہ امام کو رکوع میں پایا اور تکبیر تحریمہ کہتا ہوا رکوع میں گیا یعنی تکبیر اس وقت ختم کی کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنے تک پہنچ جائے، نماز نہ ہوئی۔ یا امام کو رکوع میں پایا اور ﷲ اکبر کھڑے ہو کر کہا مگر اس تکبیر سے تکبیر رکوع کی نیت کی، نماز شروع ہوگئی اور یہ نیت لغو ہے۔ حوالہ بہار شریعت ج ۱ ح ۳ ص ۵۰۸ ناشر مکتبہ المدینہ کراچی دعوت اسلامی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری
۱۷ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری
۰۵ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز پیر
0 تبصرے