سوال نمبر 1114
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ کن صورتوں میں میت کا قبر کھود کر اس سے نکالا جا سکتا ہے اور نکالنے کے بعد اگر دوسری جگہ دفن کریں گے تو کیا دوبارہ جنازہ پڑھنا پڑے گا ؟ جواب عنایت فرمائیں
سائل محمد گلبہار عالم رضوی گوالپوکھراتر دیناجپور بنگال
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
چند صورتوں میں میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں اور دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں
جیسا کہ حضرت عبد الرحمن الجزیری تحریر فرماتے ہیں "الحنفیۃ قالوا یستحب ان یدفن المیت فی الجھۃ التی مات فیھا ولا بأس بنقلہ من بلدۃ الی آخری قبل الدفن عند أمن تغیر رائحتہ
"اما بعد الدفن فیحرم اخراجہ و نقلہ الا اذا کانت الارض التی دفن فیھا مغصوبۃ او اخذت بعد دفنہ بشفعۃ اھ ۔"
علمائے احناف نے کہا کہ میت کو ایسی جگہ دفن کرنا مستحب ہے جس جگہ اس نے موت پائی اور میت کو دفن کرنے سے پہلے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نقل مکانی کرنے میں کوئی کراہت نہیں جب کہ اس کے بو کے تغیر کا خوف نہ ہو
رہا دفن کرنے کے بعد اس کو نکالنا اور منتقل کرنا حرام ہے مگر جب کہ وہ زمین مغصوبہ ہو جس میں میت کو دفن کیا گیا ہے یا میت کو دفن کرنے کے بعد زمین کو شفعہ کے ذریعہ لے لیا ہو
المالکیۃ:قالوا یجوز نقل المیت قبل الدفن و بعدہ من مکان الی آخر بشروط ثلاثۃاولھا ان لا ینفجر حال نقلہ ثانیھا ان لا تھتک حرمتہ بان ینتقل علی وجہ یکون فیہ تحقیر لہ ثالثھا ان یکون نقلہ لمصلحتہ کان یخشی من طغیان البحر علی قبرہ فقد ھذہ الشروط الثلاثۃ حرم النقل اھ ۔
مالکی فقہاء فرماتے ہیں کہ میت کو دفن کرنے سے پہلے اور دفن کرنے کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے
اول: اس کے نقل کے پھٹے نا
دوم:اس کی تقدس پامال نہ ہو منتقل اس طرح کریں کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو
سوم : اس کی نقل مصلحت کی وجہ سے ہو اس قبر پر سمندر کے طغیانی کا خوف ہو
تو اگر یہ تینوں شرط نہ پاۓ جائیں تو نقل کرنا حرام ۔
(کتاب الفقہ جلد اول صفحہ ١٨٨)
واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب
العبد محمد عمران القادری التنویری عفی عنہ
٩ صفر المظفر ١٤٤٢١ ہجری
٢٧ ستمبر ٢٠٢٠ عیسوی
0 تبصرے