سوال نمبر 1148
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ امام کا عقیدہ معلوم نہ ہو تو کیا اس کے پیچھے نماز جمعہ یا کوئی بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ؟
المستفتی:۔ عرفان علی پونا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
اقتداء کے لئے فقہائے کرام نے کچھ شرطیں رکھی ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے امام کا مومن ہونا یعنی اگر امام مؤمن ہے تو اس کے بعد شرطیں دیکھی جائیں گی اور اگر امام مؤمن نہ ہو بلکہ بد عقیدہ ہو تو اس کی اقتداء درست نہ ہو گی یعنی اقتداء کرنے کے لئے اول شرط ہےامام کا مسلمان ہونا ۔
پس اگر امام مومن ہے تو اقتداء درست ہے اسے معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ امام سے کلام کرے کچھ بدمذہبوں کی کتابوں کا تذکرہ چھیڑے کبھی مجدد اعظم اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ کا تذکرہ چھیڑے ۔اور اگر یہ ممکن نہ ہو مثلاً کہیں سفر میں ہوں تو دیکھیں لوگ نماز کس طرح پڑھتے ہیں نماز کے بعد انگوٹھے کو چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہیں یا نہیں یوں ہی امام سنت کس طرح پڑھتا ہے ۔اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو مثلاً جماعت کھڑی ہونے کے بعد پہونچیں تو غور فکر کریں کہ مسجد کس کی ہے در و دیوار پر یا رسول اللہ ﷺ یا غوث پاک کہیں لکھا ہوا ہے یا نہیں ،یوں ہی جو مقتدی موجود ہیں انکے چہرے سے کیا پتہ چلتا ہے کیونکہ بدمذہبوں کا چہرہ دور ہی سے بدنما دکھائی دیتا ہے ۔یوں ہی پاجامہ کس طرح پہنا ہوا ہے ٹخنے تک ہے یا گھٹنے تک ،اگر اس طرح بھی کچھ محسوس نہ ہو تو اقتداء کرلے بعد نماز غور کرے امام کس طرح سنت ونفل نماز پڑھ رہا ہے اور یہ بھی دیکھے کہ وہاں کے اکثر مقتدی کس طرح نماز پڑھتے ہیں کیوں کہ جو سنی امام ہوگا وہ بعد نماز انگوٹھا بھی چومے گا اگر چہ فرض و واجب نہیں یوں ہی بعد نماز مصافحہ بھی کرے گا ،صلوۃ سلام بھی پڑھے گا اگرچہ تنہا ۔یا پھر بعد نماز کسی سے رابطہ کرلے ۔
خلاصہ کلا م یہ ہے کہ امام اگر سنی رہے تو نماز پڑھ لے اور اگر فرقہائے باطلہ میں سے رہے تو نماز نہ پڑھے اور اگر پڑھنے کے بعد معلوم ہو تو نماز دہرا لے
ھذاما ظھر عندی
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد فرقان برکا تی امجدی
٣ربیع الاول شریف ١٤٤٢ھجری
0 تبصرے