آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

خنثی مشکل (Shemale) کا انتقال ہو جائے تو غسل کون دے؟

 سوال نمبر 1168


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ خنثی مشکل کا انتقال ہوجائے تو اسے کون غسل دے مرد یا عورت؟  جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا وتوجرو۔ 

المستفتی۔۔۔۔ محمد دستگیر 




 

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ 

الجواب بعون الملک الوہاب۔ 


خنثی مشکل ( یعنی جس میں مرد اور عورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور یہ ثابت نہ ہو کہ مرد ہے یا عورت) کا انتقال ہوا تو اسے نہ مرد نہلا سکتا ہے نہ عورت بلکہ تیمم کرایا جائے تو تیمم کرانے والا اجنبی ہو تو ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لے اور کلائیوں پر نظر نہ کرے یوں ہی خنثی مشکل کسی مرد یا عورت کو غسل نہیں دے سکتا ہے خنثی مشکل چھوٹا بچہ ہو تو اسے مرد بھی نہلا سکتا ہے اور عورت بھی یوں ہی عکس۔ 

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔ 

  "والخنثى المشكل المراهق لا يغسل رجلا ولا امرأة ولم يغسلها رجل ولا امرأة و يتمم وراء ثوب" یعنی بالغ خنثی مشکل نہ کسی مرد کو غسل دے گا نہ عورت کو اور اسی طرح مرد اور عورت خنثی مشکل کو غسل نہیں دے سکتے بلکہ کپڑا لپیٹ کر تیمم کرائیں گے " اھ


 ( فتاوی عالمگیری جلد۱, ص ۱۷۶،کتاب الصلاۃ، الباب الحادی و العشروں فی الجنائز ، دار الکتب العلمیہ بیروت )


ایسا ہی بہار شریعت میں ہے: کہ خنثی مشکل کا انتقال ہوا تو اسے نہ مرد نہلا سکتا ہے نہ عورت بلکہ تیمم کرایا جائے، اور تیمم کرانے والا اجنبی ہو تو ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لے اور کلائیوں پر نظر نہ کرے، یوہیں خنثیٰ مشکل کسی مرد یا عورت کو غسل نہیں دے سکتا، خنثی مشکل چھوٹا بچہ ہو تو اسے مرد بھی نہلا سکتے ہیں اور عورت بھی یوں ہی عکس۔

(بہار شریعت،ج۱، ص۸۱۴ مطبوعہ دعوت اسلامی) 


۔ والله تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔ 

           کتبہ

 محمد چاند رضا اسماعیلی، دلانگی، متعلم دارالعلوم غوث اعظم مسکیڈیہ۔جھارکھنڈ۔ 

۹/ ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری۔ 

۲۷/ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney