آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

مزارات اولیاء پر حاضری لگانا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1208


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مسئلہ:- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ درگاہ پر پیشی(حاضری ) لگنا کیسا ہے؟ اور اس کی کیا حقیقت ہے؟

المستفتی: محمد ماجد برکاتی کالپی شریف





 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب  بعون الملک الوہاب 

مزارات اولیاء پر حاضری دینا اور فیض حاصل کرنا جائز و درست ہے۔حدیث شریف میں ہے ’’ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  ﷺ نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوہ‘‘ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لہٰذا (اب تمہیں اجازت دیتا  ہوں کہ) ان کی زیارت کیا کرو ۔ 

(مسلم جلد اول کتاب الجنائز صفحہ ۳۱۴ ،مشکوٰۃ باب زیارت القبور الفصل الاول صفحہ ۱۵۴)

شروع اسلام میں زیارت قبر مسلمان مرد و عورت کو منع کر دیا گیا تھا کیونکہ لوگ نئے نئے اسلام لائے تھے اندیشہ تھا کہ بت پرستی کے عادی ہونے کی وجہ سے اب قبر پرستی نہ شروع کر دیں ۔ جب ان میں اسلام راسخ ہو گیا تو یہ ممانعت منسوخ ہو گئی جیسے شراب حرام ہوئی تو شراب کے برتن کا بھی استعمال کرنا ممنوع ہو گیا تاکہ لوگ برتن دیکھ کر پھر شراب یاد نہ کر لیں جب لوگ ترک شراب کے عادی ہو گئے تو برتنوں کے استعمال کی ممانعت منسوخ ہو گئی جیسا کہ محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت سے قرب کے سبب اس اندیشہ سے حضور  ﷺ نے پہلے قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ پھر کہیں جاہلیت والا رویہ نہ اختیار کر لیں ۔پھر جب اسلام کے قوانین سے لوگ خوب آگاہ ہو گئے تو آپ نے قبروں کی زیارت کے لئے اجازت دے دی۔ 

(اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۷۱۷)

اور دوسری جگہ شیخ صاحب فرماتے ہیں ’’زیارت قبور مستحب با تفاق‘‘  یعنی قبروں کی زیارت بالاتفاق مستحب ہے ۔ (اشعۃاللمعات جلداول صفحہ ۷۱۵)

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں زیارت قبور کے فوائد بتاتے ہوئے مصطفٰے جان رحمت  ﷺ نے فرمایا ۔ نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَا رَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُزَھِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الْاٰخِرَۃَ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لہٰذا (اب تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ ) ان کی زیارت کرو اس لئے کہ قبروں کی زیارت دنیا سے بیزار کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ( ابن ما جہ جلد اول ابواب ماجاء  فی الجنا ئز صفحہ ۱۱۲،مشکوٰۃ باب زیارت القبورالفصل الثالث صفحہ۱۵۴)

یونہی:- آسیب زدہ عورت کو بغرض علاج جانا بھی درست ہے جب کہ کسی اور طریقے سے ٹھیک نہ ہو جیسا کہ آج کل کے عاملین ہیں کہ روپئے کا سوال پہلے کرتے ہیں کام کچھ نہیں 

الا ماشاء اللہ

پھر بہت سے غریب ایسے ہیں کہ پیسہ بھی نہیں دے سکتے تو اگر صحیح معنوں میں آسیبی ہے اور مزارات اولیاء پر جانے سے شفا مل رہا ہے جیسے کچھوچھہ شریف یا دیگر مزارات اولیاء سے لوگوں کو فائدہ پہونچا ہے تو شرعاً اجازت ہے کیونکہ یہ مجبوری ہے جیسے غیر محرم کو ستر دکھانا حرام ہے مگر بغرض علاج ڈاکٹر کو دکھانے کی اجازت ہے اور اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے ارشاد ربانی ہے ’’اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ‌  ۚ  فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا   اِثْمَ عَلَيْهِ  اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ‘‘ اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،

(کنز الایمان ،سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۷۳)

یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مردار،خون اور سور کا گوشت حرام فرمایا مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ جو کوئی نا چار ہو یعنی مجبور تو کھا سکتا ہے اس مقدار میں کی اس کی جان بچ جائے یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور نہ بغیر ضرورت یعنی خواہش سے کھائے یونہی وہ خواتین جو صحیح معنوں میں آسیب زدہ ہیں اور ان کا علاج کسی اور طریقے سے نہیں ہو پا رہا ہے تو وہ اتنے دن کے لئے مزارات اولیاء پر جا سکتی ہیں کہ انکی پریشانی دور ہو جائے مگر اس میں بھی شرطیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

(۱)شوہر یا کسی محرم کے ساتھ ہوں ۔

(۲)بہتر عمدہ لباس میں نہ ہوں جس سے غیروں کا دل انکی طرف مائل ہو۔

(۳)بغیر زینت کے ہوں نہ کہ سنگار وغیرہ کرکے جانا جیسے کہ اکثر عورتیں کرکے جاتی ہیں ۔

(۴) مرد وعورت کا خلط ملط نہ ہو ۔

(۵)پردے کا مکمل انتظام ہو ۔

ان شرطوں کے ساتھ اگر کوئی عورت جاتی ہے تو بوجہ مجبوری رخصت یعنی اجازت ہے مگر یاد رہے کہ وہاں جاکر اپنی مرضی سے حاضری نہ لگائے یعنی مکر کر کے چلائے شور و گل کرے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ اکثر عورتیں مکر کرتی ہیں اور جھوٹ بول کر بھائی رشتہ دار کو بدنام کرتی ہیں ۔ہاں اگر شیطان اوپر حاضر ہو کر کچھ چلائے تو کوئی بات نہیں مگر اس وقت بھی پردے کا مکمل خیال رکھا جائے۔

اور اگر کچھ نہ ہوا ہو یونہی حاضری لگانا عورتوں کو قطعاً جائز نہیں جیسا کہ اکثر عورتیں ہر جمعرات کو مزارات اولیاء پر حاضری لگاتی رہتی ہیں وہ بھی عمدہ عمدہ لباس پہن کر مکمل سنگار کرکے یہ شرعاً جائز نہیں جیسا کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ عورتوں کو مزار پر جانا کیسا ہے توفرمایا ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا۔

(الملفوظ ص۲۴۰؍ رضوی کتاب گھر دہلی). 

واللہ تعالیٰ اعلم 

کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحدی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney