کیا استاد کی مار سے جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے؟

 سوال نمبر 1212


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مسئلہ:- علمائے کرام کی بارگاہ میں عرض ہے تعلیمی دور میں جو طلب علم کو اساتذہ مارتے ہیں اس پر کیا حکم ہے؟ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ جس جگہ پر استاد کی مار لگتی ہے اسکو جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی کیا یہ بات صحیح ہے؟جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں

المستفتی : سرفراز احمد بنگلور




 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب  بعون الملک الوہاب 

اُستاد کی مار جہاں لگتی ہے اس جگہ کو جہنم نہیں جلائے گی یہ من گڑھت اور جھوٹ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں غالباً بچوں کو تسلی دینے یا صبر کرنے کی غرض سے والدین بچوں سے ایسا کہتے ہیں فقیر نے بچپن سے یہی سنا ہے مگر شریعت میں اسکی کچھ اصل نہیں ہاں بوقت ضرورت اساتذہ بچوں کو مار سکتے ہیں مگر ہاتھ سے ناکہ ڈنڈے وغیرہ سے اور ایک ساتھ میں تین ضرب سے زائد بھی نہیں مارنا چا ہئے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

سرکار اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ ضرورت پیش آنے پر بقدر حاجت تنبیہ، اصلاح اور نصیحت کے لئے بلا تفریق اجرت وعدم اجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے، چنانچہ فتاوٰی شامی میں ہے کہ کسی آزاد بچے کو اس کے والد کے حکم سے مارنا جائز نہیں لیکن استاد تعلیمی مصلحت کے تحت پٹائی کر سکتا ہے۔ امام طرسوسی نے یہ قید لگائی ہے کہ مارپیٹ زخمی کردینے والی نہ ہو اور تین ضربوں سے زائد بھی نہ ہو۔

’’ درجامع الصغار استروشنی است ذکر والدی رحمۃ اﷲ تعالٰی من صلٰوۃ الملتقط اذا بلغ الصبی عشر سنین یضرب لاجل الصلٰوۃ بالید لابالخشب ولایجاوز الثلث وکذا المعلم لیس لہ ان یجاوز الثلث قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لمرداس المعلم ایاک ان تضرب فوق الثلث فانک اذا ضربت فوق الثلث اقتص اﷲ منک‘‘ جامع صغار استروشنی میں ہے میرے والد رحمۃ اﷲ تعالٰی نے بحث صلٰوۃ ملتقط میں ذکر فرمایا کہ جب بچے کی عمر دس سال ہو جائے تو نمازی بنانے کے لئے اسے ہاتھ سے سزادی جائے لاٹھی سے نہیں اور تین مرتبہ سے تجاوز بھی نہ کیا جائے۔ یونہی استاد کے لئے روا نہیں کہ تین مرتبہ سے تجاوز کرے حضور اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے استاذ کو بچوں کو مارنے کے بارے میں فرمایا تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیز کرو کیونکہ اگر تم تین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو ﷲ تعالٰی قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا۔

(احکام الصغار مسائل الصلٰوۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ؍ص۱۶؍،فتاوی رضویہ جلد ۲۳ ؍ص  ۶۵۶۳؍۶۵۴؍دعوت اسلا می )

علامہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ کسی گناہ پر بغرض تادیب جو سزا دی جاتی ہے اس کو تعزیر کہتے ہیں شارع نے اس کے لیے کوئی مقدار معین نہیں کی ہے بلکہ اس کو قاضی کی رائے پر چھوڑا ہے جیسا موقع ہو اس کے مطابق عمل کرے۔ تعزیر کا اختیار صرف بادشاہ اسلام ہی کو نہیں بلکہ شوہر بی بی کو آقا غلام کو ماں باپ اپنی اولاد کو استاذ شاگرد کو تعزیر کرسکتا ہے

(مار سکتاہے)

(ردالمحتارکتاب الحدود،باب التعزیر،ج۶،ص۹۵،وغیرہ بحوالہ بہار شریعت ح ۹ سزاؤں کا بیان )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ استاد شاگرد کو تعلیم یا ڈرانے کی غرض سے تین تھپڑ تک مار سکتا ہے وہ بھی ہاتھ سے نہ کہ لاٹھی ڈنڈہ سے ۔یونہی منھ پر بھی نہیں مارنا چاہئے کیونکہ نبی کریم  ﷺ نے منھ پر مارنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے (وعن جابر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الضرب في الوجه وعن الوسم في الوجه . رواه مسلم) اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے منہ پر مارنے اور منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا ہے یعنی کسی آدمی یا جانور کے منہ پر طمانچہ یا کوڑا وغیرہ نہ مارا جائے اور نہ کسی کے منہ پر داغ دیا جائے۔ ( مشکوٰۃ المصابیح باب منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت حدیث نمبر۳۹۸۰)

یونہی بغیر قصور کے مارنا یا تین ضرب سے زائد مارنا شرعاً جا ئز نہیں ہےاستاد کو چا ہئے کہ بالغ شاگرد سے معافی مانگے اور اگر نابالغ شاگرد ہو تو انکے والدین سے یا پھر بالغ ہو نے کے بعد معافی مانگے ورنہ یوم آخرت استاد کی پکڑ ہو گی ۔

لہذا اساتذہ کو چا ہئے کہ شاگرد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ ئیں نرمی سے سمجھا ئیں جیسے ڈاکٹر مریض کا علاج کرتا ہے اگر چہ مریض ڈاکٹر کو گالی دے برا بھلا کہے اگر ڈاکٹر مارنا پیٹنا شروع کردے تو پھر علاج کیسے کرے گا ۔یونہی استاد کو بھی چاہئے کے مثل ڈاکٹر غصہ کو قابو کرکے نرمی سے سمجھائے۔واللہ تعا لیٰ اعلم 

       کتبہ 

فقیر تاج محمد قادری واحدی







ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney