آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

بتوں کے اوپر نازل کردہ آیت اولیائے کرام پر فٹ کرنا کیسا؟

 سوال نمبر 1216


اَلسَـلامُ عَلَيْـڪُم وَرَحْمَـةُ اَلــلّــهِ وَبَـرَڪاتُـهُ‎

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین 

کہ کچھ بد مذہب لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئیے ان آیتوں کا ترجمہ اولیاء کرام کی مزاروں پر کر رہے ہیں نیچے آیت کے تراجم تحریر ہیں آپ اسکا رد فرما کر ان آیت کا شان. نزول بتا دیجیے.. 

جزاك الــلّــه خيراً عميماً

اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے، اور انکو انکے پکارنے کی خبر نہ ہو 

(القرآن سورہ الکہف ٤٦ آیت نمبر پانچ)

اور یہ زندے اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، ﷲ جسکو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور تم انکو جو اپنی قبروں میں دفن ہوئے ہیں انکو نہیں سنا سکتے (سورۂ فاطر ٣٥،) (پینتیس آیت ٢٢)

اور جن لوگو‍ کو یہ ﷲ کے سِوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود وہ پیدا کئیے گئے بےجان لاش ہیں، انکو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کب اٹھائے جائینگے(سورۂ نحل ١٦ آیت ٢٠،، ٢١)

المستفتی :احتشام رضا





 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مسئولہ میں جو آیت کریمہ ہے وہ کفار و مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ وہی لوگ (کفار و مشرکین) بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور اس آیت سے جو قبر یا مزار پر جانا مراد لے تو اس کی یہ سراسر جہالت ہے 


اور رہی بات مزار اولیاء پر جانا یا ان سے مدد طلب کرنا تو یہ جائز ودرست ہے اور اس بارے میں بہت ساری احادیث کریمہ وارد ہیں۔

فتاویٰ فیض الرسول میں ہے: بزرگان دین کے مزارات اور ان کے ذوات سے وسیلہ جائز ہے۔ اور حضور ﷺ کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے روضہ اقدس سے مختلف طریقے سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو الجوزاء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: "قال قحط اھل مدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الیٰ عائشۃ فقالت انظر و اقبر النبی ﷺ فاجعلوا منہ کوی الی السماء حتی لایکون بینہ وبین السماء سقف ففعلوا مطروا مطرا حتی نبت العشب سمنت الابل حتی لفتقت من الشحم فسمیٰ عام الفتق"

یعنی حضرت ابو جوزاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں سخط قحط پڑ گیا لوگوں نے ام المومنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی جانب چھت میں سوراخ کردو یہاں تک کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان حجاب نہ رہے پس انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس زور کی بارش ہوئی کہ خوب سبزہ اگا اور اونٹ فربہ ہوگئے یہاں تک ان کی چربی پھٹی پڑتی تھی تو اس سال کو خوشحالی کا سال کہا جانے لگا۔ (دارمی، مشکوٰۃ صفحہ ۴۵۵) 

اور امام بیہقی وابن ابی شیبہ نے مالک الدار سے روایت کی ہے: "اصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل (بلال بن حارث مزنی صحابی) الیٰ قبر النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ استسق اللہ لامتک فانھم قد ھلقوا فاتاہ رسول اللہ ﷺ فی المنام فقال ائت عمر فاقراہ السلام واخبرھم انھم سیسقون"  یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا تو ایک صحابی یعنی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے مزار اقدس پر حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے پانی مانگئے کہ وہ ہلاک ہوئے جاتی ہے  رسول اللہ ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا عمر کو جاکر سلام کہو اور لوگوں کو خبر کردو کہ جلد پانی برسنے والا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرۃ العینین میں اس حدیث کو نقل کرکے لکھا کہ رواہ عمر فی الاستیعاب اور امام قسطلانی نے مواہب میں فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اور حضرت امام غزالی رضی اللہ نے فرمایا: کہ جس سے زندگی میں مدد طلب کی جاتی ہے اس سے اس کی وفات کے بعد بھی مدد طلب کی جاسکتی ہے۔ 

مشائخ میں سے ایک نے فرمایا: کہ میں نے بزرگوں سے چار شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے قبروں میں ویسے ہی تصرف کرتے ہیں جیسے اپنے زندگی میں یا کچھ زیادہ شیخ معروف کرخی و شیخ عبدالقادر جیلانی اور دو دوسرے حضرات کو اور مقصود حصر نہیں ہے جو خود دیکھا پایا کہا۔

اور سیدی احمد بن مرزوق جو عظماء فقہاء وعلماء ومشائخ مغرب میں سے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ایک دن شیخ ابو العباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے یا فوت شدہ کی میں نے کہا کہ ایک قوم کہتی ہے کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں فوت شدہ کی کی امداد زیادہ قوی ہے توشیخ ابوالعباس نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ بارگاہ حق میں ہے اور اس کے حضور میں اور اور اس گروہ سے اس معنیٰ کی نقل حصر و احصار کی حد سے باہر ہے اور کتاب و سنت نیز اقوال سلف میں کوئی اہسی بات نہیں پائی جاتی جو اس کے منافی ہو۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۷۱۷)

اور کتاب و سنت میں جب کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو غیر اللہ سے استمداد کے منافی ہو تو یہی قرآن و حدیث سے اس کے جواز کی اصل ہے۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۴۸۲ تا ۴۸۴)


اور سوال کے آیت کریمہ کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ ہو۔ 


(۱) وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىٕهِمْ غٰفِلُوْنَ (سورۃ الاحقاف، پارہ ۲۶/ آیت ۵،)

ترجمہ: کنز الایمان اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کے سوا ایسوں کو پوجے جو قیامت تک ان کی نہ سنیں اور انہیں ان کے پوجا کی خبر تک نہیں۔


تفسیر: مشرکین اپنے ہاتھوں سے بتوں کو بناتے ہیں اور پھر انہیں خدا مان کر ان کی عبادت شروع کردیتے ہیں حالانکہ ان کی عادت یہ ہے کہ اگر یہ مشرکین قیامت رک بتوں کو پکارتے رہے تو وہ ان کی پکار سن نہیں سکتے اور نہ ہی ان کو اپنے پجاریوں کی خبر ہے کیونکہ یہ جماد اور بے جان ہیں جس کی وجہ سے نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور اس آدمی سے زیادہ گمراہ اور کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عاجز اور بے بس بتوں کی پوجا کرتا ہے اور ان سے ایسی چیزیں مانگتا ہے جو وہ قیامت تک نہیں دے سکتے نیز جو وہ کہہ رہا ہے اس سے بت غافل ہیں نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ پکڑتے ہیں کیونکہ وہ بے جان پتھر ہیں جو بالکل بہرے اور فہم کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ (تفسیر کبیر، الاحقاف، تحت الآیۃ ۵، جلد ۱۰، صفحہ ۷،۸۔ خازن جلد ۴، صفحہ ۱۲۲، ابن کثیر جلد ۷، صفحہ ۲۵۳)



(۲) وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ( سورہ فاطر پارہ ۲۲، آیت ۲۲)

ترجمہ کنز الایمان: اور برابر نہیں زندے اور مردے بے شک اللہ سناتا ہے جسے چاہے اور تم نہیں سنانے والے انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں۔


تفسیر: اس آیت میں زندہ سے مراد مومنین یا علماء ہیں، اور مردوں سے کفار یا جاہل لوگ مراد ہیں، ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ سناتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی ہدایت منظورہو اسے اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ ( خازن، جلد ۳، صفحہ ۵۳۳، جلالین شریف، صفحہ ۳۶۶)

وما انت بمسمع من فی القبور" اور تم انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں پڑے ہیں ) آیت کے اس حصے میں کفار کو کومردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور نصیحت قبول نہیں کرسکتے، بد انجام کفار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔

یاد رہے کہ اس آیت سے مردوں کو نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کفار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سننا ہے جس پر ہدایت کا نفع مرتب ہو اور جہاں تک مردوں کے سننے کا تعلق ہے تو یہ کثیر احادیث سے ثابت ہے۔ 

نوٹ: (زندوں کے سننے کے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۃ سورۃالنمل، آیت ۸۰،  اور سرکار سرکاراعلیٰ حضرت کا رسالہ حیات الموات فی بیان سماع الاموات، کا مطالعہ فرمائیں)



وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَؕ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَۙ-اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۠ (سورۃ النحل، پارہ ۱۴، آیت ۲۱،۲۰)

ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بناتے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں مردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں خبر نہیں لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔


تفسیر: مستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ یدعون کامعنیٰ یعبدون یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیسا کہ ابو سعید عبد اللہ بن عمر بیضاوی، امام جلال الدین سیوطی، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں۔ (تفسیر بیضاوی، صفحہ ۳۹۱، جلالین صفحہ ۲۱۷، ابو سعود، صفحہ ۲۵۶، روح البیان، جلد ۵، صفحہ ۲۴،۲۳)

علامہ اسمٰعیل حقی علیہ الرحمہ اس آیت کے لفظ یدعون کا معنیٰ یعبدون لکھنےکے بعد فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں لفظ دعا عبادت کے معنیٰ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ( روح روح البیان، جلد ۵، صفحہ ۲۳)

ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ کفار اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کو عبادت کرتے  ہیں وہ اس بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کرسکیں بلکہ وہ خود پتھروں، اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں۔ (سمرقندی جلد ۲، صفحہ ۲۳۲)

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنے ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کرسکتے۔ ( تفسیر کبیر جلد ۷، صفحہ ۱۹۵) 

(اموات: بے جان ہیں) امام ابن ابی ہاتم اور امام محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہما اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ بت جن کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے بے جان ہیں۔ ان میں روحیں نہیں اور نہ ہی یہ اپنی عبادت کرنے والوں کو کوئی نفع پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ( تفسیر ابن ابی حاتم  جلد ۷، صفحہ ۲۲۸۰، تفسیر طبری، جلد ۷، صفحہ ۵۷۳، ۵۷۴)

انہیں بزرگوں کے حوالے سے علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اس آیت کی یہی تفسیر درمنثور میں رقم فرمائی۔ (در منثور جلد ۵، صفحہ ۱۱۹) 

امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں اگر یہ حقیقی معبود ہوتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرح زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں زندہ نہیں اور ان بتوں کو خبر نہیں کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے تو ایسے مجبور بے جان اور بے علم معبود کیسے ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، جلد ۷، صفحہ ۱۹۵)

اور امام علی بن محمد علیہ الرحمہ اپنی کتاب تفسیر خازن میں فرماتے ہیں: اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ بت اگر معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ ضرور زندہ ہوتے انہیں کبھی موت نہ آتی کیونکہ جو معبود عبادت کا مستحق ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی اور بت چونکہ مردہ ہیں وہ زندہ نہیں لہذا یہ عبادت کے مستحق نہیں۔ (تفسیر خازن ، جلد ۳، صفحہ ۱۱۸)

ان کے علاوہ دیگر مستند تفاسیر جیسے تفسیر طبری، تفسیر سمرقندی، تفسیر بغوی، تفسیر ابوسعود، تفسیر قرطبی اور تفسیر صاوی میں صراحت ہے کہ اس آیت میں (اموات غیر احیآء) سے مراد بت ہیں کسی بھی مستند مفسر نے ان آیات کا مصداق انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کو قرار نہیں دیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔


کتبہ: غلام محمد صدیقی فیضی

متعلم(درجہ تحقیق سال دوم) دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف سدھارتھ نگر یوپی الہند


۲۲/صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری 

مطابق ۹/ اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز جمعہ مبارکہ




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney