آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

بعد وفات انبیاء، اولیاء، صحابہ، کو مدد کے لئے پکارنا کیسا ہے؟

سوال نمبر 1235



السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
بعد سلام عرض یہ ہے کہ بعد وفات نبیوں صحابیوں اور ولیوں کو مدد کے لئے پکارنا جائز ہے یا نہیں؟
قرآن کی آیات و احادیث کریمہ سے جواب عنایت فرمائیں
نوٹ =ہمارا تو عقیدہ جواز کا ہے ہی لیکن جواب اگر غیر مقلدوں کی کتاب سے مل جائے تو اچھا ہوگا

سائل محمد مستجاب نعیمی پالی راجستھان









وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب:
 صورت مستفسرہ میں بعد وفات انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، و اولیاء کرام علیہم الرحمۃ والرضوان سے مدد مانگنا بلا شبہہ جائز ہے  جب کہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور یہ سب حضرات اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شے  کا حقیقی مالک و مختار صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرّہ کی بھی مالک و مختار نہیں ہو تی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے  اپنے  پیارے حبیب ﷺ کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور حضو ر اکرم ﷺ اور دیگر انبیائے  کرام علیہم السلام و اولیائے عِظام اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے (یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے )مدد فرما سکتے  ہیں۔

 جیسا کہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  "فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ" (سورۃ التحریم، پارہ ۲۸، آیت ۴)
 تو بیشک اللّٰہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے  اور اس کے  بعد فرشتے  مدد گار ہیں۔

حدیث شریف میں ہے: حضرت سیدنا عتبہ بن غزوان  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے  روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں: ’’جب تم میں سے  کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے  یوں پکارے: اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، کہ اللّٰہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔‘‘ ( معجم کبیر جلد ۱۵، صفحہ ۱۱۷، حدیث نمبر ۲۹۰)

اور فتاویٰ فیض الرسول میں ہے: بزرگان دین کے مزارات اور ان کے ذوات سے وسیلہ جائز ہے۔ اور حضور ﷺ کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے روضہ اقدس سے مختلف طریقے سے توسل کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو الجوزاء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: "قال قحط اھل مدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الیٰ عائشۃ فقالت انظر و اقبر النبی ﷺ فاجعلوا منہ کوی الی السماء حتی لایکون بینہ وبین السماء سقف ففعلوا مطروا مطرا حتی نبت العشب سمنت الابل حتی لفتقت من الشحم فسمیٰ عام الفتق"
یعنی حضرت ابو جوزاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں سخط قحط پڑ گیا لوگوں نے ام المومنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی جانب چھت میں سوراخ کردو یہاں تک کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان حجاب نہ رہے پس انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس زور کی بارش ہوئی کہ خوب سبزہ اگا اور اونٹ فربہ ہوگئے یہاں تک  کہ ان کی چربی پھٹی پڑتی تھی تو اس سال کو خوشحالی کا سال کہا جانے لگا۔ (دارمی، مشکوٰۃ صفحہ ۴۵۵) 
اور امام بیہقی وابن ابی شیبہ نے مالک الدار سے روایت کی ہے: "اصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل (بلال بن حارث مزنی صحابی) الیٰ قبر النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ استسق اللہ لامتک فانھم قد ھلکوا فاتاہ رسول اللہ ﷺ فی المنام فقال ائت عمر فاقراہ السلام واخبرھم انھم سیسقون"  یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا تو ایک صحابی یعنی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے مزار اقدس پر حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لئے اللہ تعالیٰ سے پانی مانگئے کہ وہ ہلاک ہوئے جاتی ہے  رسول اللہ ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا عمر کو جاکر سلام کہو اور لوگوں کو خبر کردو کہ جلد پانی برسنے والا ہے۔ 
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرۃ العینین میں اس حدیث کو نقل کرکے لکھا کہ رواہ عمر فی الاستیعاب اور امام قسطلانی نے مواہب میں فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اور حضرت امام غزالی رضی اللہ نے فرمایا: کہ جس سے زندگی میں مدد طلب کی جاتی ہے اس سے اس کی وفات کے بعد بھی مدد طلب کی جاسکتی ہے۔ 

مشائخ میں سے ایک نے فرمایا: کہ میں نے بزرگوں سے چار شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے قبروں میں ویسے ہی تصرف کرتے ہیں جیسے اپنے زندگی میں یا کچھ زیادہ شیخ معروف کرخی و شیخ عبدالقادر جیلانی اور دوسرے حضرات کو اور مقصود حصر نہیں ہے جو خود دیکھا پایا کہا۔
اور سیدی احمد بن مرزوق جو عظماء فقہاء وعلماء ومشائخ  مغرب میں سے ہیں انہوں فرمایا کہ ایک دن شیخ ابو العباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے یا فوت شدہ کی میں نے کہا کہ ایک قوم کہتی ہے کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں فوت شدہ کی امداد زیادہ قوی ہے توشیخ ابوالعباس نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ بارگاہ حق میں ہے اور اس کے حضور میں اور اس گروہ سے اس معنیٰ کی نقل حصر و احصار کی حد سے باہر ہے اور کتاب و سنت نیز اقوال سلف میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو اس کے منافی ہو۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۷۱۷)
اور کتاب و سنت میں جب کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو غیر اللہ سے استمداد کے منافی ہو تو یہی قرآن و حدیث سے اس کے جواز کی اصل ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب (فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۴۸۲ تا ۴۸۴)

مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام وصحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین و اولیائے کرام علیہم الرحمہ سے بعد وفات بھی مدد مانگنا جائز و درست ہے

نوٹ: یہ جواب استاذ الفقہاء حضور فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ فیض الرسول سے لکھا گیا ہے 
اور آپ کا یہ کہنا کہ یہ جواب کسی غیر مقلد کی کتاب سے تحریر فرمادیں تو آپ یہ جان لیں کہ میں غیر مقلدوں کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اس لئے ان کی کتابوں سے جواب لکھنے سے قاصر ہوں۔



کتبہ: غلام محمد صدیقی فیضی

۱۷/ربیع الثانی ۱۴۴۲ ہجری 
مطابق ۳/ دسمبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز جمعرات



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney