سوال نمبر 1238
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(۱) مال حرام ثواب کی امید سے خرچ کرنا کیسا ہے؟
(۲) اور کیا مال حرام کھانے یا پینے کے بعد اکتالیس دنوں تک نماز و دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں. وضاحت فرمائیں. عین نوازش ہوگی کرم ہوگا فقط والسلام مع الاحترام
السائل محمد اکمل الرضا الرشیدی ویسٹ بنجال الہند
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب:
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مجدد دین و ملت سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: اُسے یعنی مالِ حرام کو خیرات کر کے جیسا پاک مال پر ثواب ملتا ہے اس کی اُمّید رکھے تو سخت حرام ہے ، بلکہ فُقَہاء(رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی) نے کُفر لکھا ہے ۔ ہاں وہ جو شَرع نے حکم دیا کہ حقدار ( یعنی جس کا مال ہے وہ، یا وہ نہ رہا ہو تو اُس کا وارِث اور وہ بھی) نہ ملے تو فقیر پر تَصَدُّق (خیرات)کر دے اِس حکم کو مانا تو اِس پر (یعنی حکمِ شریعت پر عمل کرنے پر ) ثواب کی اُمّید کر سکتا ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۵۸۰ )
اور حدیث پاک میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: ۵۱] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: ۱۷۲] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ
اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں}، اور فرمایا:{اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں} پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟
(مسلم شریف ، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، جلد ۲: صفحہ۷۰۳، رقم: ۱۰۱۵، بيروت: دار إحياء التراث العربی)
(۲) ہاں مال حرام کھانے سے اکتالیس نہیں بلکہ روایتوں میں آیا ہے کہ چالیس دن تک دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔
الترغیب و الترھیب میں ہے: :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "والذي نفس محمد بيده إن العبد ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوماً
اور مکاشفۃ القلوب میں ہے: طبرانی کی حدیث ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے سعد! حلال کا کھانا کھا، تیری دعائیں قبول ہوں گی، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے جب آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو بندہ حرام سے اپنا گوشت بڑھاتا ہے (جہنم کی) آگ اس کے بہت قریب ہوتی ہے۔ (المعجم الاوسط، جلد ۵، صفحہ ۳۴، حدیث: ۶۴۹۵۔ ماخوذ: مکاشفۃ القلوب، صفحہ ۴۷۵)
لہذا معلوم ہوا کہ حرام کھانے سے چالیس روز تک دعا قبول نہیں ہوتی جب کہ توبہ نہ کیا ہو اور اگر کسی نے حرام کھانے کے بعد توبہ کرلیا اور اس پر قائم رہا تو اب اس کی دعا ضرورقبول ہوگی کیوں کہ بعدِ توبۂ صحیحہ اعمال کی درستگی اور مقبولیت منصوص ہے.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فقیر غلام محمد صدیقی فیضی
۲۹/ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ہجری
مطابق ۱۵/ دسمبر ۲۰۲۰ عیسوی
بروز منگل
0 تبصرے