سوال نمبر 1244
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ھے علماۓ دین اگر بینک کی کمائ ناجائز ھے تو کیااس میں کام کرنے والے oficers, assistants managers , accountants سب ناجائز کمائ حاصل کر رہے ہیں؟؟۔۔براۓ کرم جواب جلدازجلد عنائیت فرمائیں
سائل محمد شبر پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب:
بینک کی ہر (یعنی مطلقا) نوکری ناجائز نہیں ہے۔یعنی جس میں سود کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو وہ نوکری کرنا جائز ہے جیسے چپراسی، گیٹ کیپر، سیکورٹی گارڈ ان سب کی نوکری کرنا جائز ہے اور جس کا تعلق سود سے ہو وہ نوکری کرنا ناجائز ہے جیسے آفیسر، اسسٹن، منیجر، اکاؤنٹینس،oficers, assistants managers , accountants یہ سب کام کرنا ناجائز ہے اور ان سے حاصل شدہ رقم حاصل کرنا بھی ناجائز ہے تو جو بھی بینک میں ایسا کاروبار کرے جس کا تعلق سود سے ہو تو ناجائز کمائی ہی حاصل کررہا ہے
علم کی باتیں میں ہے:
بینک کی وہ نوکری(کام) جائز ہے جس میں سود کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو مثلا نوکری میں سود لینے دینے، اس کی ترغیب دینے، اس کا ایگری مینٹ بنانے، اس پہ گواہ بننے کا تعلق نہ ہو تو نوکری جائز ہے جیسے بینک میں چپراسی، یا گیٹ کیپر، یا سیکورٹی گارڈ کی نوکری میں کوئی حرج نہیں، لیکن بینک میں نوکری کرنے والا ہر وہ شخص کہ جس کا تعلق سود دینے، لینے وصول کرنے، ایگریمنٹ بنانے، دسخط بنانے، گواہ بننے، معاہدے کی تصدیق کرنے، فائنل کرنے، فروغ دینے یا اس طرح کے کسی بھی چیز کے ساتھ ہے، تو ان سب کی نوکریاں حرام ہیں، یہ سب گنہگار ہیں، حدیث مبارک میں ایسے سب افراد پر لعنت آئی اور سب کو گناہ میں برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے۔
( علم کی باتیں جلد دوم صفحہ ۳۴)
حدیث پاک میں ہے:
"عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں
(صحیح مسلم جلد ۳، صفحہ ۱۲۱۹، رقم ۱۵۹۸)
کتبہ: فقیر غلام محمد صدیقی فیضی
۱۶/ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ہجری
مطابق ۲/ دسمبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز بدھ
0 تبصرے