سوال نمبر 1284
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا اسکول کالج میں پڑھنے والے طلبہ اپنے کسی ہندو دوست کو گفٹ دے سکتے ہیں؟ اور کیا کوئی لڑکی کسی لڑکے کو گفٹ دے سکتی ہے؟ تفصیلی جواب سے نوازیں کرم نوازی ہوگی۔
المستفتی:۔ مشرف رضا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب:
کا فر سے قلبی محبت کرنا اور انہیں تحفہ وغیرہ دینا شرعاً ناجائز و حرام ہے
ارشاد ربا نی ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘
اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔ (کنز لایمان سورہ مائدہ آیت ۵۱)
تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا، اُن سے مدد چاہنا اور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ ‘‘ کفر ایک ملت ہے۔
(مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ص ۲۸۹)
لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہر مخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ ( مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ص ۲۸۹ ، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ۱ / ۵۰۳ ، ملتقطاً )
اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیر خواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
البتہ قلبی محبت نہ ہو بلکہ کسی حکمت کے تحت کافروں کو اگر تحفہ دیا جا ئے جیسے کہ آج کل کفار مسلمان کے ساتھ تشدد سے پیش آتے ہیں جہاں مسلمانوں کی کمی ہے وہاں ان پر ظلم کرتے ہیں تو انہیں نرم کرنے کے لئے اور ان کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے تحفہ دے سکتے ہیں ۔یا کافر پردھان یا منتری یا کوئی اور عہدہ پر فائز ہے تو اس کو بھی اس نیت سے دینا کہ وقت آنے پر مسلمانوں کا ساتھ دیں گے کو ئی حرج نہیں دے سکتے ہیں ۔
اور یہ حدیث شریف سے ثابت ہے بلکہ امام بخاری نے اس پر ایک باب باندھا ہے
حدیث ملاحظہ ہو: ’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَى عُمَرُ حُلَّةً عَلَى رَجُلٍ تُبَاعُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْتَعْ هَذِهِ الْحُلَّةَ تَلْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَإِذَا جَاءَكَ الْوَفْدُ، فَقَالَ: إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذَا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ مِنْهَا بِحُلَّةٍ، فَقَالَ عُمَرُ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ ؟ قَالَ: إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا تَبِيعُهَا أَوْ تَكْسُوهَا، فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص کے یہاں ایک ریشمی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔ تو آپ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ آپ یہ جوڑا خرید لیجئے تاکہ جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آئے تو آپ اسے پہنا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس بہت سے ریشمی جوڑے آئے اور آپ ﷺ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے کس طرح پہن سکتا ہوں جب کہ آپ خود ہی اس کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمانا تھا، فرما چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا کہ تم اسے بیچ دو یا کسی (غیر مسلم) کو پہنا دو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے مکہ میں اپنے ایک بھائی کے گھر بھیج دیا جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا۔ (صحیح بخاری ،مشرکوں کو ہدیہ دینا۔حدیث نمبر۲۶۱۹)
ارشاد ربا نی ہے: ’’لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں۔ (کنزا لایمان سورہ ممتحنہ ۸)
سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرما تے ہیں کہ: بمصلحت شرعی ایسے (کافر کو )ہدیہ دینا جس میں کسی رسم کفر کا اعزاز نہ ہو، اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعتراض نہ ہو حتی کہ کتابیہ سے نکاح کرنا بھی فی نفسہٖ حلال ہے۔
مزید معلومات کے لئے سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا رسالہ ’’ المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ‘‘جلد ۱۴؍ص ۴۲۰؍ سے مطالعہ کریں ۔
اور اگر نابالغ لڑکی ہے تو حوصلہ افزائی کے لئے اسے گفٹ (تحفہ) دے سکتے ہیں یونہی نابالغ لڑکے کو بالغ لڑکی تحفہ دے سکتی ہے کہ پڑھنے میں اور محنت کرے اور اگر لڑکا ،لڑکی دونوں بالغ ہیں تو ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے کہ فتنہ کا باعث ہوگا،کتب فقہ میں ہے کہ عورت اجنبی مرد سے سلام کرے تو مرد کو آہستہ آوزا سے جواب دینا چاہئے ۔پھر یہاں تحفہ دینا کیوں کر جائز ہوگا وہ بھی اس پُر فتن دور میں کہ جب تحفہ دیا جائے گا تو دونوں طرف سے الفت پیدا ہوگی کچھ با تیں بھی ہونگی پھر مستقبل میں دونوں کا گناہ کبیرہ میں ملوث ہونے کا قوی اندیشہ ہے لہٰذا بالغ لڑ کا، لڑکی کا آپس میں تحفہ لینا،دینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔
واللہ تعا لیٰ اعلم
کتبہ: فقیر تاج محمد قادری واحدی
0 تبصرے