آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

کسی غیر مسلم سے سلام کرنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1330


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مجھے یہ جاننا ہے کہ جیسے ہم مسلم لوگ غیر مسلم کو نمستے کرتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کو نمستے کرتے ہیں یعنی وہ اپنا طریقہ برقرار رکھتے ہیں اور مسلمان جس بھی مذاہب کے ماننے والوں سے ملتے ہیں انہیں کے طریقے پر سلام کرتے ہیں تو کیا ہم اپنا طریقہ اس نیت سے کہ ہمارا شعار باقی رہے انہیں "السلام علیکم" نہیں کہہ سکتے ہیں؟

جواب ضرور عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائلہ: مصباح فاطمہ





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

کسی غیر مسلم سے نمستے یا نمسکار کرنا ناجائز و حرام ہے۔ اور اسی طرح کسی غیر مسلم سے "السلام علیکم" کہنا بھی ناجائز ہے ہاں اگر کسی ضرورت سے سلام کرنا پڑے تو جائز تو ہے لیکن اسے "السلام علی من اتبع الھدی " کہے ۔


مرکز تربیت افتاء میں ہے:

 نمستے و نمسکار کرنا حرام و گناہ ہے اس لئے کہ یہ غیر مسلموں کا شعار ہے اگر کوئی کسی کو کہے "السلام علیکم" تو ہر شخص جان جاتا ہے کہ یہ مسلم ہے اور اگر کوئی نمستے یا نمسکار جے رام جی کی کہے تو سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ہندو ہے ,اسی طرح گڈنائٹ اور گڈمارننگ وغیرہ بھی نہ کہے۔


حدیث شریف میں ہے کہ:

"لیس منا من تشبہ لغیرنا لا تشبھوا بالیھود ولا بالنصاری فان تسلیم الیھود اشارۃ بالیدوالنصاری اشارۃ بالکف اھ"

یعنی ہم میں سے وہ نہیں جو غیروں کا شعار اختیار کرے یہودو نصاریٰ کا شعار نہ اختیار کرو یہود کا سلام ہاتھ سے اشارہ اور نصاریٰ کا ہتھیلی سے اشارہ کرنا ہے_

یعنی یہودونصاریٰ کچھ بولتے نہیں صرف ہاتھ اور ہتھیلی سے اشارہ کرتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو نہ اپنائیں بلکہ اسلامی شعار و طریقہ اختیار کریں۔

(بحوالہ: فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۷۰)


اور جمہور فقہاء،  شراح حدیث اور ائمہ حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو "السلام علیکم " کے ذریعہ ابتداء سلام کرنا جائز نہیں ہے۔اگر کوئی تعظیما کرتا ہے تو یہ صریح کفر ہے۔

ہاں اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف " وعلیکم " یا وعلیک یا علیکم بغیر واو کے کہا جائے۔

جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ " کہنا جائز نہیں ہے ۔


حنفیہ کے علاوہ مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ کفار و مشرکین کو ابتدا بالسلام ناجائز ہے ۔

ہاں اگر کسی ضرورت سے سلام کرنا پڑے تو جائز تو ہے لیکن اسے "السلام علی من اتبع الھدی " کہے ۔


وجہ یہ ہے کہ سلام کی اصلیت دعا کی ہے اور کافر دعا کا مستحق نہیں ہے۔ 

ان حضرات کے پیش نظر وہ حدیث ہے جس میں ارشاد نبوی ہے: 

"لا تبدؤا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدھم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ" (صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أھل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم جلد ۲؍صفحہ ۲۱۴) 


نیز دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا: وعلیکم" 

(صحیح البخاري / کیف الرد علی أھل الذمۃ السلام جلد ۲؍صفحہ ۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸)۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب



کتبہ: فقیر غلام محمد صدیقی فیضی


۱/ جمادی الاخریٰ ۱۴۴۲ ہجری

مطابق ۱۵/ جنوری ۲۰۲۱ عیسوی بروز جمعہ مبارکہ




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney