سوال نمبر 1343
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ھذا میں کہ: ہندہ جس کو دوران حیض طلاق دی گئی عدت میں ہے اور ابھی ایک حیض مکمل ہوا ہے حال یہ ہے کہ ہندہ کو کبھی کبھی سال بھر حیض نہیں آتا ہے تو اس صورت میں ہندہ کی عدت کیسے مکمل ہوگی؟ کیا ہندہ کو تین (۳) حیض مکمل کرنا ہوگا اگرچہ ایک ایک سال کے وقفہ سے حیض آئے؟
سائل: ناظم رضوی واہن پور ، فرید پور
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:
صورت مسئولہ میں ہندہ کو تین حیض پوری کرنا لازم ہے خواہ یہ تین حیض تین ماہ تین سال یا اس سے بھی زیادہ وقت میں آٸیں
قرآن کریم میں ہے: " وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ- "
ترجمہ: اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک۔ (البقرہ آیت ۲۲۸)
نیز فتاوی برکاتیہ صفحہ ١٦٥پر فتاوی عالمگیری کے حوالہ سے ہے: اذاطلق الرجل امرأتہ طلاقا باٸنا او رجعیا اوثلٰثا او وقعت الفرقة بینھما بغیر طلاق وھی حرة ممن تحیض فعدتھا ثلٰثة اقراء"
نیز امام اہل سنت اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں"اور ایام عدت حرہ وموطوئہ میں تین حیض کامل ہیں" (فتاوی رضویہ شریف قدیم جلد پنجم صفحہ ٦٢٢)
نیز ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: "طہر کے لیے زیادت کی جانب کوئی حد مقرر نہیں ممکن ہے کہ تین حیض تیس برس میں آٸیں" (فتاوی رضویہ شریف قدیم صفحہ٨٦٦)
لہذا ہندہ پر تین حیض کامل عدت لازم ہے -
نوٹ :- حالت حیض میں طلاق دینے والا گنہ گار ہے اس پر توبہ لازم ہے اس لیے کہ ایسی حالت میں طلاق دینا آقا علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب ہے (مفہوم بہار شریعت ح٨ص٤و٦ مطبوعہ قادری کتاب گھر اسلامیہ مارکیٹ بریلی شریف)
دوم یہ کہ جس حیض میں طلاق دی گٸ وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا بلکہ نئے سرے سے مکمل تین حیض درکار ہوں گے۔
حضورصدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حیض کی حالت میں طلاق دی تو یہ حیض عدت میں شمارنہ کیا جاۓ بلکہ اس کے بعد پورے تین حیض ختم ہونے پر عدت پوری ہوگی (بہار شریعت ح٨ ص١٢٣ مطبوعہ قادری کتاب گھر بریلی شریف)
واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: معظم علی قادری
ساکن قصبہ فریدپور ضلع بریلی شریف ١٠جمادی الاخری ١٤٤٢
مطابق ٢٣جنوری ٢٠٢١
0 تبصرے