اگر نماز میں چھینک آئی اور الحمد للہ کہہ دیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟

 سوال نمبر 1360


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓ دین کہ نماز میں چھینک آئی اور الحمد للہ کہا تو نماز فاسد ‌ہو جاتی ھے؟ کچھ علماء فرماتے ہیں کہ اگر عادتاً کسی نے الحمد للہ کہہ دیا حمد بیان کردی تو نماز فاسد ‌نہیں ہوگی۔ اس متعلق جو درست حکم‌ شرع ہے اس سے آگاہ فرمائیں

 بینوا بالکتاب توجروا بالحساب

سائل محمد شبر پاکستان




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب:

اگر کسی کو نماز میں چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا خواہ عمدا ہو یا سہوا تو نماز ہوگئی مگر احسن یہ ہے کہ خاموش رہے اور بعد نماز الحمد للہ کہہ لے۔


جیسا کہ مصنف بہار شریعت  حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: نماز میں چھینک آئے، تو سکوت کرے اور الحمد ﷲ کہہ لیا تو بھی نماز میں حرج نہیں اور اگر اس وقت حمد نہ کی تو فارغ ہو کر کہے

(بہارشریعت ،ح،٣، ص ٦٠٥، دعوت اسلامی)


اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو عطس فقال له المصلی ،الحمد لله لا تفسد لانه لیس بجواب" 

"وان اراد به جوابه اواستفھامه فالصحیح  انھا تفسد ھکذافی التمر تاشی"

"ولو قال العاطس لاتفسد صلاته وینبغی ان یقول فی نفسه والاحسن ھو السکوت کذا فی الخلاصه"

(فتاوی عالمگیری ،ج;١،ص ١٠٩)

ترجمہ: اور اگر کسی نے چھینکا اور نمازی نے الحمد للہ کہا تو فاسد نہ ہوگی اس لئے کہ یہ جواب نہیں ہے اور اگر اس جواب کے ذریعہ اسے سمجھانے کا ارادہ کیا تو صحیح یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی اسی طرح تمرتاشی میں لکھا ہے۔

اور اگر نماز پڑھنے میں چھینکا اور خود الحمد للہ کہا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور چاہئے کہ اپنے دل میں کہہ لے اور بہتر ہے کہ خاموش رہے اسی طرح خلاصہ میں لکھا ہے۔ 

والله تعالی اعلم بالصواب


کتبه: محمد فرقان برکاتی امجدی

١١/جمادی الآخر،٢٧/جنوری،٢٠٢١







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney