جو نماز نہ پڑھے اس پر کیا حکم ہے؟

 سوال نمبر 1369


السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاته

مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھے تو اس کے لئے کیا سزا ہے اور اس کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

المستفتی:۔ محمد سہیل رضا قادری







وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبرکاته

الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب:

مذہب اہل سنت وجماعت کے مطابق ایمان لانے کے بعد تمام فرائض میں سب سے اہم و عظیم عبادت نماز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انس و جن کو اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا فرمایا ہے 


ارشاد ربانی ہے

 ’’وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘ 

 اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں ۔ (کنز الایمان سورہ الذّٰرِیٰت آیت ۵۶)

اور جس پر نماز فرض ہوجائے خواہ مرد ہو یا عورت اس پر لازم ہے کہ اپنے اپنے وقتوں میں نماز ادا کرے۔


جیسا کہ قرآن میں فرمان باری تعالی ہے:

"انَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا"

 بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ ( النساء ،آیت  ۱۰۳؍،کنز الایمان )

اور جو بندہ سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھتا ہو اس کو یوم آخرت کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ قرآن واحادیث میں بے شمار وعیدیں آ ئی ہیں ارشاد ربانی ہے 

’فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ‘‘

تو ان نمازیوں کی خرابی ہے ۔ جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں  ( الماعون،آیت۴؍۵؍کنز الایمان )


بخاری شریف میں ہے۔ ’’عن ابی ھریرۃ رضی الله عنه ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال والذی نفسی بیده لقد ھممت  ان امر بحطب فیحطب  ثم امر بالصلوۃ فیؤذن لھا ثم امر رجلا فیؤم الناس ثم اخالف الی رجال فأحرق علیھم بیوتھم والذی نفسی بیده لو یعلم احدھم انه یجد عرقا سمینا أو مر ماتین حسنتین لشھد العشاء متفق علیه‘‘ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میرے دل میں خیال آیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لئے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو بغیر کسی عذرِ شرعی کے نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے ہڈی والا گوشت یا دو عمدہ پائے ملیں گے تو وہ ضرور نمازِ عشاء میں شامل ہوتا  (بخاری شریف ،ج ۱؍ص ۱۵۹؍،کتاب الجماعت والامامت)


اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لئے وعیدیں آئی ہیں جو کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ہیں، اور حدیث مصطفیٰ ﷺ میں ترک جماعت والوں کے لئے اتنی وعیدیں ہیں تو سوچو جو مطلقا نہ پڑھتا ہو اس کے لئے کتنا بڑا عذاب ہوگا


 قرآن فرماتا ہے

’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا‘‘

تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے  ( مریم،آیت ۵۹؍،کنزالایمان )


اور جب بے نمازی بروز حشر جہنم میں ڈھکیلا جائے گا تو بتاؤ کون ہے جو رب کے حضور کلام کرسکے، دنیا کی طرح جھوٹ کا سہارا لے سکے اور کہے نہیں، نہیں، میں تو نمازی تھا ،میں نماز پڑھتا تھا ،بلکہ اسے کہنا پڑے گا کہ مولیٰ میں نماز نہیں پڑھتا تھا جس کی وجہ سے میں جہنم میں ڈالاگیا ہوں

 قرآن اس کی شہادت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

’’مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ‘‘

 تمہیں کیا بات دوزخ میں لےگئی وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے۔ ( المدثر،آیت۴۲؍۴۳؍ کنزالایمان )

لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ نماز پڑھ کر اپنے رب کو راضی کریں اور مصطفیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہونچائیں حضور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے

 ’’قرۃ عینی فی الصلوٰۃ‘‘ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔

نیز نماز ایک تحفہ ہے جو حضور ﷺ  شب معراج رب ذو الجلال سے تحفہ میں لاکر ہم غلاموں کو عطا کئے ہیں لہٰذا تحفہ کی قدر کرنی چاہئے ورنہ ہمارے اور کفار کے ل درمیان کیا فرق رہے گا؟

اللہ تعالی کا فرمان ہے

 ’’وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘

اور نماز قائم رکھو اور مشرکوں سے نہ ہو 

 ( الروم،آیت ۳۱؍کنزالایمان )


اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بے نمازی کو سخت سزائیں دی جاتی بلکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک قتل بھی کیا جاتا۔


جیسا کہ علامہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ درمختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ: ہر مکلف یعنی عاقل بالغ پر نماز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر کافر اور جو قصدا چھوڑے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسق ہے اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے  بلکہ ائمہ ثلاثہ مالک وشافعی واحمد رضی اللہ عنہم کے نزدیک سلطان اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے 

(بہار شریعت ،ح سوم،ص ۹؍قدیم) 

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنا مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے اور جو سستی کاہلی کی وجہ سے نہ پڑھے اس پر سختی کی جائے بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تمہارے بچے سات برس کے ہوں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس برس کے ہو جائیں تو مار کے پڑھاؤ۔جبکہ دس سال بچے پر نماز فرض نہیں ہے پھر بھی مار کر پڑھانے کا حکم ہے تو جو بالغ ہوگا اس کو کیوں کر چھوڑنے کی اجازت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور پنج وقتی نمازی بنائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


واللہ تعالی اعلم بالصواب



کتبہ: محمدفرقان برکاتی امجدی

١٣/جمادی الآخر،٢٩/جنوری،٢٠٢١







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney