آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

قبر توڑ کر اونچی بنانا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1377


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

میرے یہاں ایک بزرگ کی مزار ہے جس کو لوگ توسع کرنا چاہتے ہیں۔ تو ان کا مقبرہ توڑ کر اور اوپر اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ براۓ کرم مدلل و مفصل جواب عنایت فرماٸیں۔

ساٸل: رمیم اختر اسماعیلی 

پتہ:سیوان (بہار)






وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

الجواب بعون الملک الوہاب:‎ 

صورت مسٶلہ میں قبر کے ارد گرد اگر زمین جاٸز التصرف ہے تو زاٸرین کی آرام کی خاطر اس میں عمارت بنانا جاٸز ہے لیکن اس میں بھی قابل غور یہ ہے کہ

”ایک تو یہ کہ قبر کے ارد گرد عمارت  بنانا “

”اور دوسرے یہ کہ عین قبر پر عمارت بنانا  “

 پہلی صورت میں  علماء، مشاٸخ و بزرگوں کی مزارات زاٸرین کی راحت کو مد نظر رکھتے ہوۓ  گنبد اور عمارت بنانا جائز و درست ہے خواہ پرانی عمارت تنگ ہو گٸ ہو یا تعمیر نو ہو

اور دوسری صورت  تو عین قبر  پر عمارت بنانا نا جاٸز و ممنوع ہے۔


جیسا کہ مرکز عقیدت امام  عشق و محبت  مجدد دین و ملت سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت ارشاد فرماتے ہیں:  

”ائمہ دین نے مزارات حضرات علماء و مشائخ قدست اسرارہم کے گرد زمین جائز التصرف میں اس غرض سے کہ زاٸرین و مستفیدین راحت پائیں عمارت بنانا جائز رکھا، اور تصریحات فرمائیں کہ علت منع نیت فاسدہ یاعدم فائدہ ہے تو جہاں نیت محمود اور نفع موجود منع مفقود۔ تفصیل صور و تحقیق اغراض اس مسئلہ میں یہ ہے کہ کہ پہلے عمارت بنا لی جائے بعدہ اس میں دفن واقع ہو جب تو مسئلہ بنا علی القبر سے متعلق ہی نہیں کہ یہ اقبار فی البنا ہے ،

نہ کہ بنا علی القبر ،“

 علامہ طرابلسی 

برہان شرح مواھب الرحمان ، پھر علامہ حسن شرنبلالی غنیہ ذوی الاحکام، پھر علامہ سید ابوالسعود ازہری فتح اللہ المبین، پھر علامہ سید احمد حاشیتین در و مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں:

واللفظ للغنیة قال قال فی البرھان یحرم البناء للزینة ویکرہ للاحکام بعد الدفن لا الدفن فی مقام بنی فیہ قبلہ لعدم کونہ قبرا حقیقة بدونہ

 اور اگر دفن کے بعد تعمیر ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ خود نفس قبر پر کوئی عمارت چنی جائے اس کی ممانعت میں اصلا کوئی شک  نہیں کہ سقف قبر و ہواۓ قبر حق میت ہے، مع ہذا اس فعل میں اس کی اہانت و اذیت، یہاں تک کہ قبر پر بیٹھنا ،چلنا ممنوع ہوا نہ کہ عمارت چننا  ہمارے بہت علماء مذہب قدست اسرارہم نے احادیث و روایات نہی عن البناء سے یہی معنی مراد لیے اور فی الواقع حقیقی معنی یہی ہیں۔ گرد قبر کوئی مکان بنانا بنا حول القبر ہے نہ کہ علی القبر۔ جیسے صلوة علی القبر کی ممانعت بجنب القبر کو شامل نہیں


اور امام فقیہ النفس فخر الملت والدین اوزجندی خانیہ میں فرماتے ہیں

لا یجصص القبر لما روی عن النبی ﷺ انہ نہی عن التجصیص و التفضیض و عن البنا ٕ فوق القبر قالوا: اراد بالبناء السفط الذییجعل علی القبر فی دیارنا لما روی عن ابی حنیفة رضی أللہ عنہ انہ قال: لا یجصص القبر ولا یطین ولا یرفع علیہ بنا ٕ و سفط


 امام طاہر بن عبدالرشید خلاصہ میں فرماتے ہیں 

لایرفع علیہ بناء قالوا: اراد بہ للسفط الذی یجعل فی دیارنا علی القبورو قال فی الفتاوی الیوم اعتدوا السفوط


 رحمانیہ میں نصاب الاحتساب سے ہے:

لا یجوز لاحد ان  فوق القبور بیتا او مسجدا لان موضع القبر حق المقبور فلا یجوز لاحد التصرف فی ھواء قبرہ


ہندیہ میں ہے: 

یاثم بوطٸ القبور لان سقف القبر حق المیت


دوسرے یہ کہ گرد قبر کوئی چبوترہ یا مکان بنایا جائے اگر یہ زمین ناجاٸز تصرف میں ہو  جیسے ملک بے اذن مالک یا ارض وقف بے شرط واقف تو اس وجہ ناجاٸز ہے کہ ایسی جگہ تو مسجد بنانا بھی جائز نہیں اور عمارت تو اور ہے

ولذا نقل فی” المرقاة“ عن ” الازھار“ ام النھی للحرمةفی المقبرة المسبلة وانہ یجب الھدم و ان کان مسجدا

یوں ہی اگر بنیت فاسدہ ہو   مثل زینت و تفاخر جیسے عمراء کی قبور پر ابنیہ رفیعہ بمصارف وسیعہ اس غرض سے بنائے جاتے ہیں، تو یہ بوجہ فساد نیت ممنوع ،

اسی طرح جہاں بے فائدہ محض ہو جیسے کوئی قبر کسی بن میں واقع ہو جہاں لوگوں کا گزر نہیں یا عوام غیر صلحاء کی قبور جن سے نہ کسی کو عقیدت نہ بجہت تبرک و انتفاع ان کی مقابر پر جائیں نہ ان کے دنیا دار ورثاء سے امید کے وہی جاڑے گرمی برسات مختلف موسموں میں بقصد زیارت قبر و نفع رسانی میت وہاں جاکر بیٹھا کریں گے قران و ذکر میں  مشغول رہیں گے یا بروجہ جائز قراء و ذاکرین کو وہاں مقرر رکھیں گے ایسی صورت میں بوجہ اسراف و اضاعت مال نہیں۔


 علامہ تورپشتی فرماتے ہیں 

منھی لعدم الفاٸدة فیہ

مجمع بحار الانوار میں ہے:

منھیی عنہ لعدم الفاٸدة

مرقاة میں ہے:

وقال بعض الشراح من علماٸنا و لاضاعة المال

جہاں ان سب محظورات سے پاک ہو وہاں ممانعت کی کوئی وجہ نہیں  

(فتاوی رضویہ ج ٧ ص ٢٥٢۔٢٥٣ مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی)


 نیز قبر کو توڑ نا ایذا رسانٸ میت ہے جیسا کہ قبر پر بیٹھنا چلنا ناجاٸز ممنوع چہ جایٸکہ اس کو توڑنے کے لئے پھاوڑا اور کدال چلانا،

لہذا قبر کوحد شرعی سے زیادہ اونچا کرنا جائز و درست نہیں اور حد شرعی تقریبا ایک بالشت ہے اور حصار بنانے میں بھی حرج نہیں جبکہ قبت سے جدا ہو


فتاوی رضویہ شریف میں ہے:

قبر پختہ نہ کرنا بہتر ہے، اور کریں تو اندر سے کڑا کچا رہے، اوپر سے پختہ کر سکتے ہیں، طول و عرض میں موافق قبر میت ہو، اور بلندی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو، اور صورت ڈھلوان بہتر ہے (ج ٧ ص ٢٥٩)

واللہ اعلم 


کتبہ: محمد ساجد چشتی شاہجہانپوری

 خادم  مدرسہ دار ارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney