جھوٹی گواہی دینے والے امام کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

 سوال نمبر 1394


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بار ے میں کہ: بکر امام ہے اور اس نے کچہری پر مقدمہ میں جھوٹی گواہی دی اس حالت میں بکر کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اب بکر کو کیا کر نا چاہئے اگر وہ توبہ نہ کرے تو مقتدی کیا کریں

جواب عنایت فر مائیں محمد ذیشان رضا الہ آباد یوپی







وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوہاب:

جھوٹ گناہ کبیرہ ہے اور جھوٹی گواہی دینے والا فاسق معلن ہے اس شخص کو امام بنانا مکروہ ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے


اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں

جھوٹ گناہ کبیرہ ہے 

لعنۃ اللہ علی الکاذبین

اور گناہ کبیرہ کرنے والا فاسق ہے۔

بیضاوی شریف میں ہے والفاسق فی الشرع الخار عن امراللہ بارتکاب الکبیرۃ

اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔

ومشی فی شرح المنیۃ علی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم 

پس صورت مسئولہ میں بر تقدیر صدق مستفتی امام صاحب مذکور اگر اپنے گناہ سے توبہ نہ کریں تو ان کی امامت مکروہ ہے اور ان کو بشرط استطاعت امامت سے علیحدہ کرنا چاہیئے

(فتاویٰ بحرالعلوم جلد اول کتاب الصلاۃ صفحہ ۳۴۲ مطبوعہ شبیر برادرز لاہور )


لہذا بکر اگر توبہ کرلیتا ہے اور آئندہ جھوٹی گواہی دینے سے باز رہنے کا پکا عہد کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے

عدم توبہ کی صورت میں اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم


کتبہ: ابوالاحسان قادری رضوی غفرلہ









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney