نابینا کی امامت کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 1492

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ‌و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ: نابینا حافظ ‌کے‌ پیچھے نماز پڑھنا‌ کیسا‌ ہے زید کہتا ہے نا جائز ہے جب زید سے دریافت کیا گیا تم نے کہاں پڑھا ہے زید کہتا ہے ہم نے پڑھا نہیں بلکہ بہت سے علمائے کرام سے سنا ہے جب زید سے کہا گیا کسی ایک کا نام بتاؤ زید نام بتانے سے قاصر ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا نابینا حافظ ‌کے‌ پیچھے نماز ہوجائے گی یا نہیں اگر ہو جائے گی تو زید پر کیا حکم‌ لگے گا؟ جواب قرآن اور حدیث کی روشنی میں عطا فرمائیں تاکہ قوم‌ کے لوگوں کو دکھا کر ان کی رہنمائی کی جا سکے عین کرم‌ ہوگا 

سائل ۔ محمد شمس انصاری رضوی فیضی فیض آبادی

----------------------------------------------------

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

اگر کوئی شخص نابینا سے زیادہ علم و فضل رکھنے والا جماعت میں موجود ہو تو نابینا کی امامت مکروہ تنزیہی ہوگی۔

بحر الرائق میں ہے: "قید کراھۃ امامۃ الاعمیٰ فی المحیط وغیرہ بان لایکون افضل القوم فان کان افضلہم فھو اولیٰ"

نابینا کی امامت کی کراہت اس قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے کہ نابینا قوم میں افضل نہ ہو لیکن اگر فضیلت علمی و اخلاقی میں فوقیت رکھتا ہے تو اسی کی امامت اولیٰ ہے۔

 اور اگر جماعت میں اس نابینا سے زیادہ کوئی علم و فضل میں زیادہ نہ ہو اور کوئی دوسری وجہ مانع امامت بھی نہ ہو تو نابینا کی امامت بلاشبہ جائز ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: "تجوز امامۃ الاعرابی والاعمیٰ والعبد الا انھا تکرہ" یعنی اعرابی اور اندھا اور غلام کی امامت بالکراھت جائز ہے۔ 

 درمختار میں ہے: "ویکرہ تنزیھا امامۃ اعمیٰ الا ان یکون اعلم القوم" (درمختار جلد ۲، صفحہ ۲۵۵)

اور حدیث پاک میں ہے: "عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم استخلف ابن ام مکتوم یؤم وھو اعمیٰ" یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو اپنا جانشین بنایا کہ وہ امامت کریں اور وہ نابینا تھے۔ 

اور سرکار اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی تحریر فرماتے ہیں کہ:  عدیم البصر کے پیچھے نماز بلا شبہ جائز ہے مگر اولیٰ نہیں مکروہ تنزیہی ہے جبکہ حاضرین میں کوئی شخص صحیح العقیدہ غیر فاسق قرآن مجید صحیح پڑھنے والا اس سے زائد یا اس کے برابر مسائل نماز و طہارت کا علم رکھتا ہو ورنہ وہ عدیم البصر (نابینا) ہی اولیٰ و افضل ہے ( فتاویٰ رضویہ شریف جلد ششم صفحہ ٤١٦ رضا فاؤنڈیشن (دعوت اسلامی)) 

لہذا مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوا کہ اگر پوری جماعت میں نابینا ہی سب سے زیادہ عالم و متقی ہے اور مسائل طہارت و نماز سے واقف ہے تو نابینا کی امامت بلاشبہ جائز ہے۔

اور اگر نابینا سے زیادہ بہتر اور مسائل جاننے والے موجود ہوں تو نابینا کی امامت کراہت تنزیہی ہوگی۔

اور زید نابینا کی امامت کو ناجائز کہنے کی وجہ سے جاہل ہے اور مسائل شرعیہ سے ناواقف ہے اس لئے زید پر لازم ہے کہ آئندہ کبھی بھی بنا تحقیق کے کسی کو مسئلہ نہ بتائے۔

اور زید غلط مسئلہ بتانے کے سبب گنہگار مستحق عذاب نار ہے اس پر لازم ہے کہ وہ علانیہ توبہ واستغفار کرے ۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


کتبہ: غلام محمد صدیقی فیضی ارشدی

۱۸/ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ

مطابق ۱/اپریل ۲۰۲۱ء بروز جمعرات







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney