سوال نمبر 1461
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے یعنی اگلی امتوں سے کس نبی کے متعلق سوال قبر ہوتا تھا؟ جواب سے نواز کر شکریہ کا موقع دیں
سائل: عادل رضا دہلی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ اگلی امتوں سے سوال قبر ہوتا ہی نہیں تھا۔
جیسا کہ فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد اول صفحہ نمبر ٣٤٠،٣٤١ میں ہے کہ: اگلی امتوں سے سوال قبر کے سلسلے میں صحیح و راجح قول یہی ہے کہ اگلی امتوں سے سوال قبر نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ اسی امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہے
فتاوی حدیثیہ میں ہے:
"وکان اختصاصھم باسوال فی القبر من التخفیفات التی اختصوا بھا عن غیرھم لما تقرر فتامل ذالك مقتضی الحادیث سوال الملکین ان المومن ولو فاسق یجیبھما کالعدل و لکن بشارته تحتمل ان تکون بحسب حاله ویوافقه قول ابن یونس اسمھما علی المذنب منکر"١ھ (ص ١١)
اور اس کی ترجیح علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی فرمائی ہے۔ وہ فرماتے ہیں
نقل العلقمی فی شرحه علی الجامع الصغیر ان الراجح ایضا اختصاص السوال بھذه الامة خلافا لما استظھره ابن القیم و نقل ایضا عن الحافظ ابن حجر العسقلانی ان الذی یظھر اختصاص السوال بالمکلف وقال تمعه علیه شیخنا یعنی الحافظ السیوطی "١ھ
( ردالحتار، ج ٢، ص؛ ١٩٢)
(ماخوذ فتاوی مرکز تربیت افتاء، ج ١، ص ٣٤٠،٣٤١)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ: محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا
علاقہ۔ بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج بہار
0 تبصرے