سوال نمبر 1484
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ایک سوال ہے کہ: احتلام ہونے سے غسل فرض کیوں قرار دیا گیا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماٸیں بڑی مہربانی ہوگی
سائل: مولانا رفیق بہرائچ شریف یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
چونکہ ---------------- !!!
حالت شہوت میں منی جب اپنی جگہ سے نکل کر باہر آتی ہے تو پورے جسم کو لذت حاصل ہوتی ہے اس لئے پورے جسم کو دھونے یعنی غسل کاحکم دیا گیا ہے۔
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے کہ:
قرآن مجید میں جنب کے متعلق مبالغہ کا صیغہ آیا ہے جیسا کہ پارہ 6 رکوع 6 میں ہے وان کنتم جنبا فاطہروا اور اس میں طہارت کے لئے حکم وضو کی طرح بعض اعضاء کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ پورے بدن کی طہارت مطلوب ہے اور اس کی عقلی وجہیں تین ہیں
اول یہ کہ: انزال منی کے ساتھ قضائے شہوت میں ایسی لذت کا حصول ہوتا ہے کہ جس سے پورا بدن متمع ہوتا ہے اس لئے اس نعمت کے شکرانے میں پورے بدن کو دھونے کا حکم ہوا
اسی سبب سے وجوب غسل کے لئے علی وجہ الدفق والشہوۃ
کی قید ہے کہ بغیر ان کے لذت کا حصول نہیں ہوتا اسی لئے اس صورت میں وضو واجب ہوتا ہے نہ کہ غسل۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ: جنابت پورے بدن کی قوت سے حاصل ہوتی ہے اسی لئے اس کی زیادتی کا اثر پورے جسم سے ظاہر ہوتا ہے لہذا جنابت سے پورا بدن ظاہر وباطن بقدر امکان دھونے کا حکم ہوا
اور یہ باتیں پیشاب وغیرہ میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ: بارگاہ الٰہی میں حاضری کے لئے کمال نظافت چاہئیے اور کمال نظافت پورے بدن کے غسل ہی سے حاصل ہوگا مگر پیشاب وغیرہ جس کا وقوع کثیر ہے اس میں خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بندوں کی آسانی کے لئے وضو کو غسل کا قائم مقام کردیا اور جنابت کا وقوع
چونکہ --------------- !!!
کم ہے اس لئے اس میں پورے بدن کا دھونا لازم قرار دیا گیا
جیسا کہ تفسیر روح البیان جلد دوم صفحہ 355
اور بدائع الصنائع جلد اول صفحہ 36 میں ہے۔
(فتاویٰ فیض الرسول جلد اول صفحہ 167 )
واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: ابوالاحسان قادری رضوی غفرلہ
0 تبصرے