سوال نمبر 1502
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں ”لمبے لمبے ہاتھوں سے بھیک دینے والے“ اسطرح کا جملہ بولنا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی :- محمد ذیشان
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون الملک العزیز الوہاب
کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ لمبے لمبے ہاتھوں سے بھیک دینے والے جائز و درست ہے اور اس سے کثرت انفاق و سخا مراد ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو کثرت کرم و نوازش سے استعارہ ہے اور محاوروں کا استعمال کلام عرب میں کثرت سے ہے اور قرآن و احادیث میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے یجعلون اصابعھم فی آذانھم
اس آیت میں اصابع انمل سے استعارہ ہے ورنہ کانوں کا پھٹ جانا لازم آئے گا کہ اگر کوئی پوری انگلیاں کانوں میں ڈال لے تو اس کے پردے پھٹ جایٸں گے لہٰذا یہاں اصابع سے انمل مراد ہے
اور حدیث کریمہ میں ہے الید العلیا ٕ خیر من الید السفلی جس میں ”الید العلیا ٕ “ عطا کرنے سے استعارہ ہے اور ”الید السفلی “ لینے سے استعارہ ہے اور ہماری آپ کی مادری زبان میں بولا جاتا ہے کہ فلاں جگہ بڑے بڑے علمائے کرام تشریف لائے جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ وہ علماء کرام بہت لمبے چوڑے تھے بلکہ کثرت علم مراد ہوتی ہے لہذا جملہ مذکورہ فی السوال کسی سخی کے بارے میں کہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن خصوصاً اس جملے کا استعمال لوگ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے کرتے ہیں جس کے استعمال میں کوئی قباحت و برائی نہیں کر سکتے ہیں جائز و درست ہے
ھذا ما ظھر لی والعلم بالحق عند اللہ تعالی و عند رسولہ ﷺ
کتبہ
محمد ساجد چشتی شاہجہانپوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف
0 تبصرے